طالبان نے بدھ کے روز کہا کہ مقامی خواتین کو افغانستان میں اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے سے منع کرنے کا ان کا فیصلہ ایک اندرونی معاملہ ہے جس کا تمام فریقوں کو احترام کرنا چاہیے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے افغان خواتین عملے پر پابندی کے نفاذ کے ایک ہفتے بعد سخت موقف رکھنے والے طالبان عہدہ داروں نے اپنا پہلا باضابطہ ردعمل جاری کیا ہے۔
اس سے ایک دن پہلےکابل میں اقوام متحدہ کے مشن کے دفتر نے ’’غیر قانونی‘‘ پابندی کی مذمت کی تجدید کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ یہ اقدام عالمی ادارے کو ملک میں کارروائیاں بند کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
SEE ALSO: اقوام متحدہ افغان خواتین کو عالمی ادارے کے ساتھ کام سے روکنے کے فیصلے پر شدید برہمطالبان کے اعلیٰ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کے روز ایک بیان میں اپنی صرف مرد وں پر مشتمل حکومت کے لیے سرکاری لقب استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’’امارت اسلامیہ‘‘ اقوام متحدہ کے لیے رکاوٹیں کھڑی نہیں کرنا چاہتی۔
مجاہد نے مزید کہا، ’’بلکہ یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے، جو کسی اور کا مسئلہ نہیں ہےاور ہر ایک کو اس کا احترام کرنا چاہیے‘‘۔
اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل آمنہ محمد نے بدھ کو ٹوئٹر پر کہا کہ ’’افغانستان میں خواتین کے حقوق سے دستبردار ہونا کوئی متبادل نہیں ہے‘‘۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے مشن نے ایک بیان میں کہا کہ اس کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے افغانستان میں اقوام متحدہ کی کارروائیوں کا جائزہ شروع کیا ہے جو کہ 5 مئی تک جاری رہ سکتا ہے، تمام عملے کو اس مدت کے دوران کام سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
SEE ALSO: طالبان نے خواتین پر پارکوں یا لان میں واقع ریسٹورانٹس جانے پر بھی پابندی عائد کر دیاقوام متحدہ نے منگل کو کہا تھاکہ وہ اپنےعملے میں شامل افغان خواتین پر پابندی کی تعمیل نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اس کے منشور اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے عملے کے تقریباً 4000 ارکان میں سے تقریباً 3300 افغان ہیں۔ ان میں تقریباً 400 افغان خواتین اوردیگر 200 بین الاقوامی خواتین کا عملہ شامل ہے۔
گزشتہ دسمبر میں، طالبان نے مقامی خواتین پر ملکی اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی، جس کے نتیجے میں بعض نتنظیموں نے اپنا امدادی کام معطل کر دیا تھا۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ طالبان انتظامیہ ’’اس بحران کے کسی بھی منفی نتائج‘‘ کے لیے ذمہ دار ہو گی جو ملک بھر میں لاکھوں افغانوں پر برسوں کی جنگ اور طویل خشک سالی سے جھلس رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اپنے بیان میں، مجاہد نے مغربی حکومتوں کو افغانستان میں انسانی بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا، اور اسے ملک کے مالیاتی اور بینکنگ نظام پر بین الاقوامی پابندیوں، بیرون ملک مرکزی بینک کے اثاثوں کو منجمد کرنے اور طالبان رہنماؤں پر سفری پابندیوں کا نتیجہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ایسی تمام پابندیاں ہٹانے سے افغانستان اقتصادی اور سیاسی ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ مجاہد نے کہا، ’’افغانوں میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت ہے‘‘۔
SEE ALSO: نائن الیون متاثرین افغان سینٹرل بینک کے اثاثے حاصل کرنے کا حق نہیں رکھتے، امریکی جج کی تجویزافغانستان دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحرانوں میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2 کروڑ 83 لاکھ افراد یا دو تہائی آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ چھ کروڑ لوگ قحط کے دہانے پر ہیں۔
اس سال 4.6 بلین ڈالر کی انسانی ہمدردی کی امداد کی جو اپیل کی گئی تھی اس میں 200 ملین ڈالر سے کچھ زیادہ کی فنڈنگ ملی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے نے بدھ کو خبردار کیا ہے کہ افغان اپیل کے لیےملنے والی فنڈنگ ختم ہو رہی ہے، جس سے لاکھوں جانیں خطرے میں ہیں۔ ’’ فنڈنگ فوری طور پر نہ ملنے کی صورت میں لاکھوں افغان قحط، بیماری اور موت کے گھیرے میں رہیں گے‘‘۔
SEE ALSO: افغان عوام کی مدد کا مطلب طالبان کو تسلیم کرنا نہیں، امریکہامدادی کارکنوں کو خدشہ ہے کہ خواتین امدادی کارکنوں کے خلاف طالبان کا کریک ڈاؤن اقوام متحدہ کی اپیل کو مزید کمزور کر سکتا ہے اور یہاں تک کہ عطیہ دہندگان کو افغانستان میں انسانی امداد کے پروگرام کے لیے تعاون معطل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
سخت گیرطالبان، خواتین پر لگائی جانے والی پابندیوں پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ یہ افغان ثقافت اور اسلامی قانون کے مطابق ہے۔
اس نوعیت کی پابندیوں نے دنیا کو، طالبان کی حکومت کو قانونی حیثیت دینے سے روک رکھا ہے۔
(ایاز گل، وائس آف امریکہ)