افغانستان کے شمال مغربی صوبہ ہرات میں باغات یا سبزہ زار میں واقع ریستورانوں میں خواتین کےجانے پرپابندی کے بارے میں ایک اہل کار نے پیر کو اطلاع دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام مذہبی اسکالرز اور عوام کی جانب سے ایسی جگہوں پر صنفی میل جول کے بارے میں شکایات کے بعد کیا گیاہے۔
طالبان کی طرف سے اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے عائد کردہ پابندیوں میں یہ تازہ ترین ہے۔ انہوں نے لڑکیوں کے لیےچھٹی جماعت سے آگے تعلیم اور یونیورسٹیوں میں خواتین کے داخلے پر پابندی کےعلاوہ، اقوام متحدہ اورزیادہ تر اداروں میں انہیں ملازمتوں سے باہر کر دیا ہے۔ ان پر پارکس اور جم جیسی عوامی جگہوں پر بھی پابندی ہے۔
عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں صنفی اختلاط کی وجہ سےعائد کی گئی ہیں یا اس وجہ سے کہ خواتین مبینہ طور پر حجاب صحیح طریقے سے نہیں پہن رہی ہیں۔
باہر کھانے پر پابندی صرف ہرات میں لاگو ہوتی ہے، جہاں اس طرح کے مراکز مردوں کے لیے کھلے رہتے ہیں۔
ہرات میں اخلاقیات کی وزارت کی ڈائریکٹریٹ کے ایک ڈپٹی باز محمد نذیر نے میڈیا کی ان خبروں کی تردید کی کہ تمام ریستورانوں میں خاندانوں اور خواتین کے جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
انہوں نے ایسی اطلاعت کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا اطلاق صرف سبز ہ زاروں پر بنے ہوئے ریستورانوں پر ہوتا ہے، جیسے پارک، جہاں مرد اور خواتین مل سکتے ہیں۔
عزیز الرحمن المہاجرنے، جو ہرات میں اخلاقیات کی ڈائریکٹریٹ کےسربراہ ہیں کہا، ’’علماء اور عام لوگوں کی بار بار شکایات کے بعدہم نے حد مقرر کی ہے اور ان ریستورانوں کو بند کر دیا ‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ،’’یہ ایک پارک کی طرح تھا لیکن انہوں نے اسے ریستوران کا نام دے دیا جہاں مرد اور خواتین ملتے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب اسے درست کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، ہمارے آڈیٹرز ان تمام پارکوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں جہاں مرد اور خواتین جاتے ہیں‘‘۔
نذیر نے ان خبروں کی بھی تردید کی کہ صوبے میں غیر ملکی فلموں، ٹی وی شوز اور میوزک کی ڈی وی ڈیز کی فروخت پر پابندی ہے، ان کا کہنا تھا کہ کاروباری مالکان کو اس مواد کو فروخت کرنے کے خلاف مشورہ دیا گیا تھا کیونکہ یہ اسلامی اقدار سے متصادم ہے۔
نذیر نے مزید کہا کہ جن دکانداروں نے مشورے پر عمل نہیں کیا انہوں نے آخرکار اپنی دکانیں بند ہوتی دیکھ لیں۔
انہوں نے مقامی میڈیا کی ان خبروں کی بھی تردید کی کہ ہرات میں انٹرنیٹ کیفے بند ہو گئے ہیں، لیکن کہا کہ غیر موزوں مواد کی وجہ سے گیمنگ آرکیڈز میں اب بچوں کے جانے پر پابندی ہے۔ کچھ کھیلوں سے خانہ کعبہ اور دیگر اسلامی علامات کی توہین ہوتی ہے۔
نذیر نے کہا،’’انٹرنیٹ کیفے، جہاں طلباء سیکھتے ہیں اور اپنی پڑھائی کے لیے استعمال کرتے ہیں، ضروری ہیں اور ہم نے انہیں(کھلے رہنے کی) اجازت دے دی ہے‘‘۔
یہ رپورٹ ایسوسی ایٹڈ پریس کی فراہم کردہ اطلاوات پر مبنی ہے۔