اسلام آباد میں عالمی یوم صحافت کے موقع پر وفاقی دارالحکومت میں پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے صحافیوں کے احتجاجی مظاہرے کے دوران مظاہرین کی طرف سے پارلیمنٹ ہاؤس جانے کی کوشش کے دوران پولیس سے ہاتھا پائی ہوئی۔ صحافیوں نے پولیس پر تشدد کا الزام عائد کیا ہے۔
صحافیوں کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لے کر اٹارنی جنرل سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
یہ واقعہ دوپہر کے وقت اس وقت پیش آیا جب نیشنل پریس کلب کے صحافیوں کے ایک پینل آزاد پینل نے ملک بھر میں صحافیوں کی مختلف میڈیا ہاؤسز میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور مختلف پرتشدد واقعات کے خلاف پریس کلب سے پارلیمنٹ ہاؤس تک مارچ کا اعلان کیا۔
پولیس نے ان صحافیوں کو پارلیمنٹ کے قریب ڈی چوک پر روکنے کی کوشش کی اور اس دوران خاردار تاروں کی مدد سے راستہ بند کر دیا۔ لیکن صحافیوں نے رکاوٹیں عبور کرکے آگے جانے کی کوشش کی تو پولیس اہلکاروں نے زبردستی صحافیوں کو روکا۔
روکے جانے کے دوران، پولیس اہلکاروں اور صحافیوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوگئی جس سے چند صحافی معمولی زخمی بھی ہوئے، بعد ازاں صحافیوں نے شاہراہ دستور پر دھرنا دیدیا اور بھرپور اجتجاج کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس معاملے کی اطلاع چیف جسٹس ثاقب نثار کو دی گئی تو انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اس معاملہ کے حوالے سے تمام تفصیلات حاصل کریں، جمعہ کے روز اس معاملہ پر سماعت ہوگی۔
صحافیوں پر مبینہ تشدد کے حوالے سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، آصف علی زرداری اور دیگر سیاسی قائدین نے مذمت کرتے ہوئے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
واقعہ پر صحافیوں نے سینیٹ کی پریس گیلری سے احتجاجی واک آﺅٹ بھی کیا۔
اجتجاج میں شریک نیشنل پریس کلب کے سابق صدر، شہریار خان نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا دارالحکومت صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے لیے خطرناک ترین بن چکا ہے۔ ایک طرف صحافیوں کی تنخواہوں کے مسائل درپیش ہیں۔
دوسری طرف انہیں اپنی جان بچانا مشکل ہوگیا ہے۔ اپنے ساتھیوں کے مسائل اور ان کی زندگیوں کو درپیش خطرات اجاگر کرنے کے لیے اپنی آواز اٹھانے کا حق بھی نہیں دیا جارہا اور پولیس گردی کی جا رہی ہے۔