ایک نئے تحقیقاتی مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں ایک اعشاریہ آٹھ ارب سے زیادہ افراد شدید سیلاب کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان میں سے زیادہ ترلوگ ایشیا کے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں، اور 10 میں سے چار متاثر افراد غربت کا شکار ہیں۔
یہ اعداد و شمار پچھلے تخمینوں سے کافی زیادہ ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا کہ خطرہ ان لوگوں کے لیے زیادہ ہے جو سیلاب کا مقابلہ کرنے اور پھر بحال ہونے کے قابل نہیں ہوتے۔
جرمن ریسرچ سینٹر برائے جیوسائنسز کے ہائیڈرولوجسٹ برونو مرز نے کہا کہ سیلاب کے خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
" میرے خیال میں یہ واقعی ایک قیمتی تحقیق ہے۔ کیونکہ غربت اور سیلاب کے خطرے کے درمیان اس تعلق کو ایک طرح سے نظر انداز کیا جاتا ہے"۔
مسٹر برونومرز اس تحقیقی مطالعے میں شامل نہیں تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سیلاب کے خطرے کے جائزوں میں عام طورپر مالیاتی نقصان پر نظر رکھی جاتی ہے جو امیر ممالک میں سب سے زیادہ ہے جہاں زیادہ دولت داؤ پرلگی ہوئی ہے۔ نئی تحقیق میں اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی کہ سیلاب اورغربت کے درمیان کتنا گہرا تعلق ہے۔
نیچرکمیونیکیشنز نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں گنجان آبادی اورغربت سے متعلق معلومات کے ساتھ سیلاب کے خطرے کے عالمی ڈیٹا بیس کو ملایا گیا۔ تحقیق میں ان جگہوں پرتوجہ مرکوز کی گئی جہاں اوسطاً ہر 100 سال میں کم از کم ایک بار 15 سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ گہرا پانی جمع ہو جاتا ہے۔
تحقیق سے پتا چلا کہ شدید سیلاب کے خطرے سے دوچار تقریباً 90 فیصد لوگ غریب ممالک میں رہتے ہیں ۔ سیلاب سے متاثرہ 7 کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ لوگ روزانہ ساڑھے پانچ ڈالر بھی نہیں کماتے ہیں۔
ہالینڈ کی فرائی یونی ورسٹی میں سیلاب کے خطرے کے محقق جیروین ایرٹس نے کہا کہ سیلاب اور غربت کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جبکہ امیر ممالک کے پاس پہلے ہی سیلاب سے بچاؤ کے لیے زیادہ وسائل ہوتے ہیں۔ ایرٹس بھی اس مطالعہ میں شامل نہیں تھے۔
ایرٹس نے کہا کہ "کم پیسہ غریب ممالک کو جا رہا ہے، وہاں سیلاب سے نمٹنے لیے مالی وسائل بہت کم ہیں۔ پھر یہی نہیں، ہر ملک کے اندر امیر اور غریب علاقے ہیں ، ظاہر امیرشہری علاقوں میں سیلاب سے بچاو اور اس سے نمٹنے کے لیے زیادہ وسائل ہوتے ہیں۔
عالمی سطح پرسیلاب کا نیا تخمینہ پہلے لگائے گئے تخمینوں سے زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر، ایک پچھلی تحقیق نے پیش گوئی کی تھی کہ 2050 تک 1.3 ارب لوگ شدید سیلاب کا شکار ہوں گے - نئے تخمینے سے پچاس کروڑ کم, مطالعہ کرنے والے محقیقین اس زیادہ تعداد کی وجہ ان کے بہتر ڈیٹا کے استعمال کو قرار دیتے ہیں جس میں زیادہ سے زیادہ خطوں کو شامل کیا جاگیا ہے، اس کے علاوہ ساحلی، دریا اور زمین کی سطح پر پھیلنے والے سیلاب کے خطرات کو یکجا کر کے تجزیہ کیا گیا ہے۔
SEE ALSO: بلوچستان: طوفانی بارش سے تین دن میں 14 افراد ہلاک، سینکڑوں مکان منہدملیویز یا ڈیک مرز نے کہا کہ "اس مطالعے میں حفاظتی انتظامات کا جائزہ نہیں لیا گیا، اس لحاظ سے یہ جائزہ تصویر کو مسخ کر دیتا ہے، کیوں کہ بعض ممالک میں بہتر حفاظتی انتظامات پہلے سے موجود ہوتے ہیں، جیسے کہ ہالینڈ میں ہیں۔
مرز کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے یہ مطالعہ اس نکتے پر مرکوز رہا کہ ہو سکتا ہے کہ سیلاب سے خطرے میں پڑنے والے لوگوں کا ایک بڑا حصہ غریب علاقوں میں رہتا ہے۔
ان کا کہنا کہ "بہت سے کم آمدنی والے ممالک میں سیلاب سے بچاؤ کے مناسب انتظامات نہیں ہیں، اس لیے آبادیاں ایک چھوٹے سے سیلاب میں بہہ جاتی ہیں جو اوسطاً ہر پانچ سال بعد آتا ہے۔ دوسری طرف، یورپ میں، شمالی امریکہ میں، بہت سے علاقے محفوظ رہتے ہیں"۔
SEE ALSO: بنگلہ دیش میں سیلاب کی تباہ کاریاں، درجنوں ہلاک لاکھوں بے گھرایرٹس نے کہا کہ "نیا مطالعاتی تخمینہ دنیا بھرمیں سیلاب کے خطرے کا ایک سرسری جائزہ پیش کرتا ہے جیسا کہ یہ آج ہے، اس کا اندازہ نہیں لگایا گیا کہ یہ مستقبل میں کیا رخ اختیار کرے گا۔ لیکن یہ درست ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کے بیشتر حصوں میں سیلاب کی تعداد اور شدت میں اضافے کا امکان ہے۔ اگرچہ قبل از وقت وارننگ سسٹم نے سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں میں کمی ہوئی ہے، بشمول وسائل سے محروم علاقوں میں، سیلاب زدہ علاقوں میں آبادی میں اضافہ مستقبل میں مزید لوگوں کو خطرے میں ڈال دے گا ۔