ایک یزیدی خاتون کو، جس کا چہرہ اسلامک اسٹیٹ کی غلامي سے چھٹکارہ پانے کے لیے فرار ہونے کی کوشش کے دوران بارودی سرنگ کی زد میں آکر مسخ ہوگیا تھا، یورپی پارلیمنٹ نے جمعرات کے روز آزادی اظہار کے سخاروف ایوارڈ سے نوازا۔
مئی میں وائس آف امریکہ کی ویب اس بارے میں ان کی جدوجہد اور طبی سہولتوں کی عدم دستیابی سے متعلق شائع ہونے والے ایک مضمون کی اشاعت کے بعد امدادی تنظیموں نے جرمنی میں ان کی ازسرنو آبادکاری میں مدد دی اور پھر اس کے بعد سے ان کے چہرے کو درستگی کے لیے متعدد آپریشن ہو چکے ہیں۔
جب اپریل کے وسط میں لامیا اجی بشر عراق میں داعش کے ایک جنگجو کے گھر سے فرار ہوئیں تو اس وقت ان کا خیال تھا کہ مہینوں کی غلامي اور اسلامک اسٹیٹ کی اذیتوں کا اب آخر کار خاتمہ ہوگیا ہے۔
لیکن آزادی کے اپنے سفر کے دوران عراقی قصبے حویجہ کے قریب بارودی سرنگ کے دھماکے میں 18 سالہ بشیر کی بینائی جاتی رہی اور ان کا چہرہ بری طرح مسخ ہوگیا۔
داعش کی غلامی سے فرار ہونے سے پہلے لامیا اجی بشر کو پانچ بار جنسی غلامی کے لیے بیچا گیا تھا
ان کا علاج کرنے والے ایک کرد ڈاکٹر حسین بحریری کا کہنا تھا کہ ان کی دائیں آنکھ تقربیاً ضائع ہو گئی تھی البتہ بائیں آنکھ کا علاج ہو سکتا تھا۔
بشیر ، عراقی اقلیت یزیدیوں سے تعلق رکھنے والے ان ہزاروں افراد میں شامل ہے جنہیں اسلامک اسٹیٹ کے منظم تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔ اس کے ڈاکٹر نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ بشیر کے زخموں کا علاج عراق میں ممکن نہیں ہے اور اسے جلد ازجلد پلاسٹک سرجری کی ضرورت ہے۔
عسکریت پسندوں نے تقریباً 5000 یزیدی عورتوں اور مردوں کو 2014 کی گرمیوں میں پکڑا تھا جن میں سے تقریباً 2000 بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
انہوں نے بتایا کہ مجھے خاندان کے بارہ افراد کے ساتھ پکڑا تھا۔ ایک مہینے تک خاندان کے ساتھ قید میں رکھنے کے بعد انہوں نے مجھے میری دو بہنوں کے ساتھ الگ کیا اور سینکڑوں دوسری لڑکیوں کے ساتھ داعش کے دارالحکومت رقہ لے گئے۔
بشیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسلامک اسٹیٹ نے اسیری کے دوران انہیں پانچ بار جنسی غلامي کے لیے فروخت کیا۔ اور موصل میں اسلامک اسٹیٹ کے ایک کمانڈر نے انہیں خودکش جیکٹ پہننے اور کار بم دھماکہ کرنے کے لیے مجبور کیا۔
بعد ازاں بشیر کو عراقی قصبے حویجہ میں اسلامک اسٹیٹ کے ایک ڈاکٹر کے پاس بیچ دیا گیا، جہاں اس کی ملاقات دو یزیدی لڑکیوں الماس اور کیتھرین سے ہوئی۔ انہوں نے خفیہ طریقے سے بشیر کے رشتے داروں سے رابطہ کروا یا، جنہوں نے ایک اور شخص کی مدد سے فرار ہونے کا انتظام کیا۔
اپریل کے وسط میں انہوں نے اسلامک اسٹیٹ سے چھٹکارے کے لیے عراقی كردستان کی جانبان کے پر خطر سفر کا آغاز کیا۔
سہولت کار نے انہیں ایک کار میں شہر سے باہر لایا اور خبردار کیا کہ راستے میں بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں ۔ احتياط کے باوجود کیتھرین کا پاؤں ایک بارودی سرنگ پر آ گیا، جس سے کیتھرین اور الماس موقع پر ہی ہلاک ہو گئیں اور بشیر شديد زخمی ہو ئی۔
اس المناک صورت حال سے گذرنے کے باوجود بشیر اپنے مستقبل کے بارے میں مسلسل پر امید رہیں۔
وائس آف امریکہ میں ان کی کہانی شائع ہونے کے بعد کئی امدادی تنظیموں اور افراد نے مدد کے لیے ان سے رابطہ کیا۔
لامیا اجی بشر جرمنی میں آباد ہو چکی ہیں اور ان کا علاج جاری ہے