ہیومن رائٹس واچ نے پیر کو کہا کہ عراق پر حملہ کرنے کے 20 سال بعد، امریکہ ابو غریب جیل میں بدسلوکی سے بچ جانے والوں کو معاوضے کی ادئیگی کا کوئی طریقہ پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ میں واشنگٹن کی ڈائریکٹر سارہ یاگر نے کہا، "بیس سال گزرنے کے بعد، امریکی اہلکاروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے عراقیوں کے پاس اب بھی دعویٰ دائر کرنے یا امریکی حکومت سے کسی قسم کا ازالہ یا توثیق حاصل کرنے کا کوئی واضح راستہ نہیں ہے۔"
"امریکی حکام نے اشارةً کہا ہے کہ وہ تشدد کو ماضی میں پس پشت ڈالنے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن تشدد کے طویل مدتی اثرات اب بھی بہت سے عراقیوں اور ان کے خاندانوں کے لیے روزمرہ کی ایک حقیقت ہیں۔"
حقوق گروپ نے ان لوگوں کا انٹرویو کیا جن میں طالب المجلی بھی شامل تھے، جو ایک سابق قیدی تھے انہوں نے کہا کہ وہ اس وسیع پیمانے پر رپورٹ ہونے والی تصویر میں تھے جس میں دکھایا گیا ہے کہ امریکی فوجیوں نےابو غریب جیل میں ’ہڈ‘ پہنے ہوئےبرہنہ عراقی قیدیوں کا ایک انسانی مینا ربنایاہوا ہے۔
المجلی نے کہا کہ ان کی جنسی طور پر تذلیل کی گئی، کتوں سے ڈرایا گیااور پانی کے ہوز سےبوچھاڑ کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں 16 ماہ کے بعد بغیر کسی الزام کے رہا کیا گیا تھا لیکن وہ اس صدمے سے نمٹنے کے لیے اپنے ہاتھ اور کلائیاں دانتوں سےکاٹتے رہے ہیں، جس سے ایسے نشانات رہ گئےتھے کہ اب وہ چھوٹی آستین کی قمیض نہیں پہن سکتے۔
انہوں نے حقوق کے گروپ کو بتایا،"اس ایک سال اور چار مہینوں کے عرصے نے میرے پورے وجود کو بدترین طور پر بدل دیا۔ اس نے مجھے تباہ کر دیا اور میرے خاندان کو تباہ کر دیا۔"
ہیومین رائٹس واچ نےکہاہے کہ وہ طالب المجلی کے مکمل بیان کی تصدیق نہیں کر سکے۔
ابو غریب میں کم از کم 11 امریکی فوجیوں کو بدسلوکی کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کو دی جانے والی سزائیں ہلکی تھیں اور اعلیٰ عہدہ داروں میں سے کسی کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا گیا۔
SEE ALSO: 'بلیک واٹرز' کے کانٹریکٹرز کو صدارتی معافی دینے پر عراق میں غم و غصہہیومین رائٹس واچ نے کہا کہ ابو غریب متاثرین کے لیے امریکہ یا عراق کے نظام کے ذریعے معاوضہ وصول کرنے کا کوئی قانونی راستہ نہیں مل سکا۔
یاگر نے کہا، "امریکہ کو بدسلوکی سے بچ جانے والوں اور ان کے خاندانوں کو معاوضہ، توثیق اور سرکاری معافی فراہم کرنی چاہیے۔"
ایک اندازے کے مطابق امریکی قیادت والے اتحاد نے 2003 سے 2009 تک تقریبأ ایک لاکھ عراقیوں کو حراست میں لیا تھا۔
SEE ALSO: عراق: 'ابو غریب جیل' کے سابق قیدیوں کو ہرجانے کی ادائیگیہیومن رائٹس واچ نے انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی 2004 کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی زیر قیادت اتحادی فوجی انٹیلی جنس نے اندازہ لگایا ہے کہ گرفتار کیے گئے 70 سے 90 فیصد لوگوں کو غلطی سےحراست میں لیا گیا تھا۔
2008 میں منتخب ہونے والے، صدر براک اوباما نے جو عراق جنگ کے ناقد تھے، اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ "ٹارچر" نہیں کرے گا لیکن انہوں نے جارج ڈبلیو بش کی سابق انتظامیہ کے اہلکاروں کے خلاف احتساب نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
کانگریس کے منظور کردہ قانون کی وجہ سے، امریکہ نے اسی طرح کیوبا کی گوانتاناموبے جیل سے رہا ہونے والے قیدیوں کو بھی معاوضہ نہیں دیا۔
(یہ رپورٹ اے ایف پی کی اطلاعات پر مبنی ہے۔)