یمن کے عہدے داروں نے خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے بعد یمن کے ایک ایسے جزیرے پر، جو سمندری نگرانی کے اعتبار سے بہت اہم ہے، پراسرار طور پر تعمیر ہونے والے ہوائی اڈا کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔
یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے ایک قانون ساز علی المعماری نے رپورٹ کی بنیاد پر سوال اٹھایا ہے کہ آیا اس تعمیر کا تعلق متحدہ عرب امارت سے ہے؟
یمن کے ایک اور سرکاری عہدے دار نے واضح تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارت یمن میں صدر عبدی ربو منصور ہادی کی حکومت کو 'کمزور' کر رہا ہے۔
یمن کئی برس سے خانہ جنگی سے گزر رہا ہے، جس کا آغاز 2015 میں ہوثی قبائل کے ساتھ لڑائیوں سے ہوا تھا۔ ہوثیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے، جب کہ سعودی قیادت کا ایک فوجی اتحاد صدر ہادی کی جانب سے ان کے خلاف لڑ رہا ہے۔ یمن کے دارالحکومت پر ہوثی قابض ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق، متحدہ عرب امارات نے ہوائی اڈے کی تعمیر سے متعلق سوال کا متعدد بار کی جانے والی درخواستوں کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی بدھ تک ان کی جانب سے کوئی سرکاری بیان سامنے آیا۔
مائن نامی جزیرے پر ہوائی اڈے کی تعمیر سے اس سمندری علاقے پر کنٹرول اور یمن کے مرکزی علاقے پر فضائی حملے کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ علاوہ ازیں اسے بحیرہ احمر، خلیج عدن اور مشرقی افریقہ میں فوجی مہمات کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ جزیرے پر رن وے اور عمارتیں بن چکی ہیں۔ 11 اپریل کو حاصل کئے جانے والے سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق جزیرے پر بنائے گئے تقریبا دو کلومیٹر طویل رن وے پر تعمیراتی سامان کے ٹرک اور زیر تعمیر عمارتیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
18 مئی تک بظاہر تعمیراتی کام مکمل ہو چکا ہے، اور رن وے کے جنوب میں طیاروں کے تین ہینگرز تقریباً مکمل ہو گئے ہیں۔ منگل کے روز لی گئی تصاویر میں عمارتوں کے سامنے گاڑیاں کھڑی دکھائی دے رہی ہیں۔
تعمیر کیے جانے والے رن وے کو نگرانی کرنے والے طیاروں اور ٹرانسپورٹ طیاروں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ صدر ہادی کی حکومت کے ایک عہدے دار نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر اے پی کو بتایا کہ ہوائی اڈا متحدہ عرب امارات نے بنایا ہے اور اس نے حالیہ ہفتوں میں بحری جہازوں پر وہاں فوجی ساز و سامان اور اہل کار بھجوائے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
فوجی افسر کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر ہادی کی حکومت اور متحدہ عرب امارت کے درمیان کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب اماراتیوں نے یہ دباؤ ڈالا کہ مائن جزیرہ انہیں 20 سال کے لیے لیز پر دے دیا جائے۔
متحدہ عرب امارات کے عہدےدار صدر ہادی کی حکومت سے کسی طرح کے اختلاف سے انکار کرتے ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا ملک 2019 میں یمن کی جنگ سے لاتعلق ہو گیا تھا۔
ہادی کی حکومت متحدہ عرب امارت پر یہ الزام لگاتی ہے کہ وہ یمن کی جنگ میں علیحدگی پسندوں کی مدد کر رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اماراتیوں کی ایما پر کیے گئے ایک حملے میں 30 سرکاری فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
ہادی حکومت کے ایک قانون ساز علی اشعال نے حکام کو ایک خط میں پوچھا ہے کہ اطلاعات کے مطابق اماراتی ہمارے جزیرے مائن میں فوجی اڈا تعمیر کر رہے ہیں جس سے ارکان حکومت لاعلم ہیں۔
صدر ہادی کی وزارت اطلاعات کے ایک عہدے دار محمد قائسان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے مائن جزیرے کے حوالے سے ہمارے ملک میں دراندازی کی ہے۔