امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے بھوک و افلاس سے شدید متاثرہ ملک یمن میں حوثی باغیوں کو 'غیر ملکی دہشت گرد تنظیم' قرار دیے جانے کے ٹرمپ انتظامیہ کے اقدام کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 جنوری کو اپنا عہدہ صدارت چھوڑنے سے صرف ایک دن قبل ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام پر اقوامِ متحدہ کے حکام نے کہا تھا کہ حوثی باغیوں کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو بھوک و افلاس سے متاثرہ ملک یمن میں امدادی کارروائیاں شدید متاثر ہو سکتی ہیں اور یہ ملک بڑے پیمانے پر قحط میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق امریکی محکمۂ خارجہ کے عہدیدار نے جمعے کو ایوان نمائندگان کے اراکین کو مطلع کیے جانے کے بعد اس فیصلے کی تصدیق کی ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی طرف سے اس فیصلے کی تصدیق گزشتہ روز امریکی صدر جو بائیڈن کے اس اعلان کے بعد کی گئی جس میں انہوں نے سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں پانچ برس سے جاری جنگ کی حمایت ختم کرنے کا کہا تھا۔
حکام کے مطابق اس فیصلے سے صدر بائیڈن کی حوثی باغیوں سے متعلق مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ جنہوں نے شہریوں کو نشانہ بنایا اور امریکیوں کو اغوا کیا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس اقدام کا مقصد ٹرمپ انتظامیہ کے آخری دنوں میں کیے گئے فیصلے کی وجہ سے پیدا شدہ انسانی بحران کو ختم کرنا ہے جس کی وجہ سے اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق انسانی بحران میں اضافہ ہو سکتا تھا۔
سابق امریکی صدر اوباما کی انتظامیہ نے 2015 میں سعودی عرب کے یمن میں حوثی باغیوں کو فضائی حملوں کے ذریعے نشانہ بنانے کے اقدام کی حمایت تھی۔ جو کہ یمن کے دارالحکومت صنعا سمیت دیگر علاقوں پر قابض ہیں۔
حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب پر متعدد ڈرون اور میزائل حملے بھی کیے گئے۔
امریکہ کی سعودی عرب کی حمایت کا مقصد فضائی حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنا تھا۔ تاہم سعودی فورسز کے حملوں میں اسکول بس میں بچوں اور کشتیوں میں مچھیروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
ان حملوں میں بچ جانے والے لوگوں کی طرف سے بمبوں کے ایسے حصے بھی دکھائے گئے جو امریکی ساختہ تھے۔
صدر بائیڈن کی یمن جنگ میں امریکی حمایت ختم کرنے کا اعلان
امریکی صدر نے رواں ہفتے جمعرات کو سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں پانچ سالوں سے جاری جنگ کی حمایت ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
صدر بائیڈن نے سفارت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یمن میں جاری جنگ کے حوالے سے اپنے عزائم واضح کرنے کے لیے وہ جارحانہ کارروائیوں کے لیے تمام امریکی تعاون کو ختم کر رہے ہیں۔ جن میں اسلحے کی فروخت بھی شامل ہے۔
صدر بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ سعودی عرب کے دفاع میں ہر طرح سے مدد دے گا۔ لیکن اس کی تفصیلات کیا ہوں گی یہ امریکی صدر نے اپنی تقریر میں واضح نہیں کیا۔
بائیڈن انتظامیہ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسلحے کی فروخت کے اربوں ڈالرز کے معاہدے التوا میں ڈال رہا ہے۔
حوثی باغی جو یمن کے دارالحکومت صنعا سمیت ملک کے کئی علاقوں پر کنٹرول رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ امریکی اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
سعودی حکومت یمن میں جاری انسانی بحران کو ختم کرنے کی خواہاں
سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع پرنس خالد بن سلمان کا امریکی اقدام پر کہنا ہے کہ سعودی عرب یمن میں جاری انسانی بحران کے خاتمے اور تنازع کے حل کے لیے امریکہ سمیت دیگر شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کا خواہش مند ہے۔
خالد بن سلمان کا مزید کہنا تھا کہ وہ صدر بائیڈن کی سعودی عرب اور اس کے لوگوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے عزم کا خیر مقدم کرتے ہیں۔