یمن کے دارالحکومت میں جمعے کی نماز کے بعد ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ۔ صدر علی عبد ا للہ صالح کو ان کے استعفے کے عوض ، ان پر مقدمہ چلائے جانے سے جو استثنیٰ دیا گیا ہے، وہ اس پر احتجاج کر رہے تھے ۔
مظاہرے میں شامل لوگوں کا کہنا تھا کہ گلف کو آپریشن کونسل نے علی صالح کو مقدمے سے جو استثنا دیا ہے، انھیں اس پر اعتراض ہے ۔’’ ہم اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، اور ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک یہ استثنیٰ واپس نہیں لیا جاتا ۔ ‘‘
اس کے ساتھ ہی صنعا میں صدر کی حمایت میں بھی مظاہرے ہوئے ۔ مقامی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ سیکورٹی فورسز اور منحرف ہو جانے والے فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
مسٹر صالح نے سمجھوتے پر بدھ کے روز دستخط کیے۔ انھوں نے 30 دن کے اندر دستبردار ہونے اور اقتدار اپنے نائب کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ سمجھوتہ گلف کوآپریشن کونسل کے ارکان کی وساطت سے طے پایا جنھوں نے اسے اہم کامیابی قرار دیا۔
لیکن ایچ آئی ایس گلوبل انسائیٹ کی غالا ریانی کا کہنا ہے کہ اس سمجھوتے کے بارے میں ابھی بہت سے سوالات جواب طلب ہیں۔’’ایک مسئلہ یہ ہے کہ صالح کو اب بھی صدر کہا جاتا ہے ۔ کل، صنعا کی جھڑپوں میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے ۔ اس کے فوراً بعد صدر، یعنی صالح کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں اس واقعے کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ وہ اس معاملے کی تفتیش کرائیں گے ۔ تو اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے پاس کس قسم کے اختیارات اب بھی باقی ہیں۔‘‘
احتجاج کرنے والے ہزاروں لوگوں نے ٹیلیویژن پر سمجھوتے پر دستخط کیے جانے کی تقریب دیکھی جس کے بعد دارالحکومت میں جشن منایا گیا ۔ لیکن ریانی کہتی ہیں کہ بہت سے طاقتور ادارے اب بھی مسٹر صالح کے وفادار ہیں۔ ’’کیا وہ ان گروپوں کو سیاسی امور میں مداخلت کے لیے استعمال کرتے رہیں گے؟ ان گروپوں میں ان کا بیٹا بھی شامل ہے جو ریپبلیکن گارڈز کا سربراہ ہے۔‘‘
مغربی ممالک یمن کے واقعات پر کڑی نظر رکھے ہوئےہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عمر فاروق عبد المطلب نے ، جس پر دو برس قبل کرسمس کے روز نارتھ ویسٹ ایئر لائنز کی ڈیٹرائٹ جانے والی فلائٹ کو دھماکے سے اڑانے کی کوشش کا الزام ہے ، یمن میں تربیت حاصل کی تھی۔
امریکہ باقاعدگی سے یمن میں القاعدہ کے اہداف پر بغیر پائلٹ والے ہوائی جہازوں یعنی ڈرونز سے حملے کرتا رہتا ہے ۔ ستمبر میں، ایک حملے میں انور العولکی کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس پر القاعدہ کا سب سے بڑا پراپاگنڈسٹ ہونے کا الزام تھا ۔
غالا ریانی کہتی ہیں’’میرے خیال میں امریکہ بھی یمن میں زیادہ ملوث ہونا نہیں چاہتا۔ وہ یمن میں ایسی قیادت چاہتے ہیں جو ان کے ساتھ مل جل کر کام کرے ۔ صالح کے ساتھ ان کا یہی انتظام تھا ۔ وہ چاہیں گے کہ اسی قسم کا تعلق مستقل بنیاد پر قائم ہو جائے اور اس قسم کی قیادت مل جائے جو ان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر تیار ہو، اور انہیں دہشت گردی کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کی اجازت دے دے۔‘‘
ریانی انتباہ کرتی ہیں کہ جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ جیسے دہشت گرد گروپ، یمن میں سیاسی خلفشار سے فائدہ اٹھانے اور عام لوگوں میں اپنی حمایت میں اضافہ کرنے کی کوشش کریں گے۔