تیونس اور مصر میں حالیہ حکومت مخالف احتجاج کے بعد یمن میں بھی ملک کے صدر علی عبدالله صالح کے حق اور اُن کے خلاف مظاہروں میں شدت آ رہی ہے۔
مسٹر صالح کے مخالفین نے جمعرات کو دارالحکومت میں صنعا یونیورسٹی کے قریب احتجاجی مظاہرہ کیا جب کہ صدر کے حامیوں نے شہر کے وسطی علاقے میں جلوس نکالا۔
کئی ہفتوں سے جاری احتجاج کے دوران ہونے والے یہ سب سے بڑے مظاہرے تھے جو ایسے وقت کیے گئے جب صدر صالح نے ایک روز قبل ہی یمنی پارلیمان کو بتایا ہے کہ 2013ء میں عہدے کی موجودہ مدت ختم ہونے کے بعد وہ اس میں توسیع کی کوشش نہیں کریں گے اور نا ہی اُن کا بیٹا جانشینی کا مطالبہ کرے گا۔
بتیس سال سے اقتدار سنبھالے یمنی صدر نے احتجاجی مظاہرے روکنے کی اپیل کی ہے۔
یمن میں حزب اختلاف نے صدر صالح سے تاحال مستعفی ہونے کا مطالبہ نہیں کیا ہے لیکن وہ سیاسی نظام میں اصلاحات اور انتخابات کے ذریعے اقتدار کی پرامن منتقلی چاہتے ہیں۔
یمن کو معاشی بدحالی کے علاوہ شدت پسندی اور فرقہ واریت جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔
صدر صالح نے احتجاج کے پیش نظر سرکاری ملازمین اور فوجیوں کی تنخواہوں میں اضافہ تجویز کیا ہے اور ٹیکس میں 50 فیصد کمی کے علاوہ حکومت کو ملک میں اشیاء کی قیمتوں کی نگرانی کا نظام وضع کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
صدر صالح نے احتجاج کے پیش نظر سرکاری ملازمین اور فوجیوں کی تنخواہوں میں اضافہ تجویز کیا ہے اور ٹیکس میں 50 فیصد کمی کے علاوہ حکومت کو ملک میں اشیاء کی قیمتوں کی نگرانی کا نظام وضع کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔