یمن کی مخالف پارٹیوں کےسرگرم کارکنوں نےصناع میں لاکھوں کی تعداد میں ایک ریلی نکالی ہے جس میں صدرعلی عبداللہ صالح کےاقتدارچھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جنھوں نے پہلی بار اپنے اتحادی امریکہ پر الزام عائد کیا ہےکہ وہ روزبروزہونےوالےاحتجاجی مظاہروں کی مددکررہا ہے۔
منگل کو اپنے خطاب میں مسٹرصالح نے امریکہ اوراسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ مل کر یمن اور عرب دنیا کے دیگر حصوں میں بغاوت بھڑکا رہے ہیں۔ اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ یہ مبینہ منصوبہ تل ابیب میں تیار کیا گیا، جسے امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے۔
امریکی محکمہٴ خارجہ کے ترجمان پی جے کرولی نےمنگل کے دِن سماجی نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ، ٹوٹر کو بتایا کہ مسٹر صالح کو ’اس سےزیادہ پتا ہے‘، بجائے یہ کہہ دینے کے کہ یمن کا احتجاج بیرونی سازشوں کا حصہ ہے۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ یمنی لوگ اپنے راہنما سے بہتر جواب کا تقاضا کررہے ہیں۔
مسٹر صالح نے حالیہ برسوں میں القاعدہ کے دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑنے میں امریکہ سے تعاون کیا ہےجنھوں نے افلاس زدہ ملک کے لاقانونیت کے شکارحصوں میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے خلاف حملوں کی سازشیں تیار کی ہیں۔
صدر کے بیان کے فوری بعد اپوزیشن کے کارکن صناع یونیورسٹی کے قریب ایک چوک پر اِکٹھے ہوئے، صالح کے خلاف نعرے بازی کی اور گذشتہ ماہ حکومت مخالف احتجاجوں کے شروع ہونے کے بعد صالح کے حمایتیوں کے ہاتھوں کم از کم 24افراد کی ہلاکت پر احتجاج کیا۔ بشمول تائز اور عدن کے، یہ حکومت مخالف احتجاج کئی شہروں میں ہوئے ہیں جہاں مظاہرین نے بغاوت میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں سیاہ جھنڈے اُٹھارکھے تھے۔
دریں اثنا، صدر صالح نے منگل کو ملک کے 22صوبائی گورنروں میں سے پانچ کو معطل کردیا ہے۔ ایسوسئیڈ پریس نے حکومتی عہدے دار کے حوالےسے بتایا ہے کہ تین گورنروں کو اِس لیے فارغ کیا گیا کیونکہ اُنھوں نے حزب مخالف کے احتجاجیوں کے خلاف کارروائی کرنے پر مسٹر صالح پر نکتہ چینی کی تھی۔
مسٹر صالح نے قومی اتحاد پر مبنی حکومت کے قیام کےلیے اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مکالمے کی پیش کش کی ہے، تاہم پیر کو اِن جماعتوں نے اِسے مسترد کردیا اور صناع اور دوسرے مقامات پر زیادہ تر طلبا کی قیادت میں نکلنے والے احتجاجی مظاہروں میں شرکت پر اتفاق کا اظہارکیا۔