دنیا بھر میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والی زیادہ تر لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو عموماً ہراساں کیے جانے کے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے بعض صورتوں میں انہیں آف لائن ہونا پڑتا ہے اور کئی بار انہیں ذہنی اذیت سے بھی گزرنا پڑ جاتا ہے۔
حال ہی میں دنیا کے متعدد ملکوں میں بڑے پیمانے پر کیے جانے والے ایک سروے میں، 15 سے 25 سال کی عمروں کی جن 14 ہزار لڑکیوں اور خواتین کو شامل کیا گیا تھا ان میں سے نصف سے زیادہ کا کہنا تھا کہ وہ سائبر حملوں کا نشانہ بن چکی ہیں، انہیں آن لائن ہراساں کیا گیا اور قابل اعتراض پیغامات بھیجے گئے۔
یہ سروے بچوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک عالمی تنظیم 'پلین انٹرنیشنل' نے کرایا تھا، جس کے دفاتر دنیا کے 71 ممالک میں قائم ہیں۔
اس سروے میں 22 ملکوں کی لڑکیوں اور خواتین سے انٹرویوز کیے گئے تھے، جس سے ظاہر ہوا ہے کہ سوشل میڈیا خواتین اور لڑکیوں کو ہراساں کیے جانے کے ایک اور ذریعے کے طور پر سامنے آیا ہے۔
پلین انٹرنیشنل کی چیف ایگزیگیٹو این برگٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ ان حملوں کی نوعیت جسمانی نہیں ہوتی لیکن اکثر اوقات یہ دھمکی آمیز ہوتے ہیں اور نوجوان خواتین کے آزادی اظہار کے اپنے حق کو محدود کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہراساں کیے جانے کے واقعات سے نوجوان خواتین باالخصوص لڑکیاں اکثر اوقات آف لائن ہو جانے پر مجبور ہو جاتی ہیں، جس سے ان کی ان صلاحیتوں کو نقصان پہنچتا ہے جس سے وہ قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل بن سکتی تھیں۔
گارڈین میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سروے میں 20 فی صد نوجوان خواتین کا کہنا تھا کہ ہراساں کیے جانے کے بعد انہیں سوشل پلیٹ فارم سے آف لائن ہونا پڑا جب کہ مزید 12 فی صد نے کہا کہ آن لائن دھمکی ملنے کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا استعمال کرنے کے اپنے طریقہ کار کو تبدیل کر دیا۔
40 فی صد نوجوان خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں فیس بک کے پلیٹ فارم پر ہراساں کیا گیا جب کہ کئی دوسری خواتین اور لڑکیوں نے اپنے انٹرویوز میں بتایا کہ ان کے ساتھ ہراساں کیے جانے کے واقعات سوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارمز پر بھی پیش آئے جن میں انسٹاگرام، وٹس ایپ، سنیپ چیٹ، ٹوئٹر اور ٹک ٹاک شامل ہیں۔
سروے سے یہ بھی پتا چلا کہ لڑکیوں اور خواتین کو صرف جنس کے ناطے ہی نہیں بلکہ ان کی نسل اور شناخت کی بنیاد پر بھی ہدف بنایا گیا۔
سروے میں شامل جن نوجوان خواتین کو ہراساں کیا گیا ان میں سے ایک تہائی کا تعلق نسلی اقلیت سے تھا جب کہ 56 فی صد کی شناخت ایل جی بی ٹی کیو پلس تھی۔
آن لائن ہراساں کیے جانے کے واقعات مختلف طریقوں سے پیش آئے۔کچھ لوگوں نے نازیبا اور قابل اعتراض زبان استعمال کی۔ کچھ نے بدنام کرنے اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کی دھمکی دی۔ جس کے نتیجے میں انٹرویو میں شامل ایک چوتھائی خواتین کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہ خود کو جسمانی طور پر محٖفوظ نہیں سمجھتیں۔
نکاراگوا سے تعلق رکھنے والی 19 سالہ نادسکا نے بتایا کہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ انہیں آن لائن اس قدر ہراساں کیا گیا کہ خود کو نارمل رکھنے کے لیے انہیں کئی مرتبہ سکون آور دوائیں استعمال کرنا پڑیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں سوشل پلیٹ فارم پر کئی مرتبہ تحقیر آمیز اور نفرت پر مبنی جملوں کا سامنا کرنا پڑا اور کئی موقعوں پر نامعلوم اکاؤنٹس سے انہیں قتل کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
2018 میں اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ خواتین کو آن لائن ہراساں کیے جانے کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون سازی کریں، تاکہ وہ آزادی اظہار کا اپنا حق استعمال کر سکیں۔
دنیا کے کئی ممالک نے آن لائن ہراساں کرنے کو سائبرکرائم کا درجہ دے دیا ہے۔
خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے نگہبان بین الاقوامی گروپ 'پلین انٹرنیشنل' نے کہا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی عالمی وبا پھیلی ہوئی ہے اور لوگوں کی اکثریت اپنے گھروں تک محدود ہے، خواتین بھی اپنا وقت ڈیجیٹل پلیٖٹ فارمز پر صرف کر رہی ہیں، یہ سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین کو سوشل پلیٹ فارموں پر ایک محفوظ ماحول کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔