’’افغانستان میں امن پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے اور پاکستان کسی بھی ایسے عمل میں پوری مدد کرے گا جِس کی باگ ڈور خود افغانوں کے ہاتھ میں ہو‘‘: زرداری
صدرِ پاکستان صدر آصف علی زرداری نے پیر کو امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن سے ملاقات کی۔تقریبًا پچاس منٹ تک جاری رہنے والی اِس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے افغانستان کے لیے لائحہ عمل، دہشت گردی کے خلاف جنگ، آئی اِی ڈیز، یعنی دیسی ساخت کے بموں کی روک تھام اور معاشی معاملات کے علاوہ ایک متنازعہ امریکی فلم کی وجہ سے پاکستان میں جاری مظاہروں اور اِس سے پیدا ہونے والے سیکورٹی کے مسائل پر بھی بات چیت کی۔
صدر زرداری نے ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ کویقین دہانی کرائی کہ افغانستان میں امن پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے اور پاکستان کسی بھی ایسے عمل میں پوری مدد کرے گا جِس کی باگ ڈور خود افغانوں کے ہاتھ میں ہو۔
ا ُس متنازعہ فلم پر اعتراض کرتے ہوئے جِس کی وجہ سے پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک میں مظاہرے ہو رہے ہیں، صدر زرداری نے کہا کہ ’’آزادیِ اظہار کے نام پر ایک یا دو پاگل افراد کو دنیا کا امن خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیئے‘‘۔
صدر زرداری نے امریکہ کی معاشی امداد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ اس امداد کو ہر شعبے میں پھیلانے کے بجائے امریکہ کو چاہیئے کہ چند بڑے پراجیکٹس پر اسے مرکوز کیا جائے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگلے ماہ لندن میں ہونے والی پاکستان انوسٹمنٹ کانفرنس سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ ، اُنہوں نے’ یو ایس پاکستان خواتین بزنس کونسل‘ کے آغاز کو بھی خوش آئند قرار دیا۔
اس ملاقات میں امریکہ کی طرف سے وزیر خارجہ کلنٹن کے علاوہ افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی مندوب مارک گروسمین، ڈپٹی وزیر خارجہ تھامس نائیڈز، پاکستان کے لیے نئے امریکی سفیر رچرڈ اولسن، جنہوں نے پیر کی صبح ہی اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہے، اور افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی صدر براک اوبامہ کے مشیر جنرل ڈگلس لوٹ شامل تھے۔
پاکستان کی طرف سے صدر زرداری کے علاوہ وزیر خارجہ حنا ربّانی کھر، سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی، امریکہ میں پاکستان کی سفیر شیری رحمان، چین میں پاکستان کے سفیر مسعود خان جن کا نام اگلے ماہ سے اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر کے عہدے کے لیے بھی نامزد کیا گیا ہے، وزیر برائے انسانی حقوق مصطفٰی نواز کھوکھر، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی اور ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستّار شامل تھے۔
ابتدائی بیس منٹ تک تمام لوگ ملاقات میں شریک رہے، جبکہ باقی وقت صرف صدر زرداری، وزیر خارجہ کلنٹن، نئے امریکی سفیر اولسن، اور پاکستانی سفیرشیری رحمان کے درمیان بات چیت جاری رہی۔
صدر زرداری چار روزہ دورے پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے اتوار کو نیو یارک پہنچے تھے۔ ان کے شیڈول میں امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کے علاوہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرز راس موسن اور چینی وزیر خارجہ جی ایچ ینگ اور مائیکروسافٹ کے سابق سربراہ اور معروف شخصیت بل گیٹس سے ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔
صدر زرداری نے ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ کویقین دہانی کرائی کہ افغانستان میں امن پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے اور پاکستان کسی بھی ایسے عمل میں پوری مدد کرے گا جِس کی باگ ڈور خود افغانوں کے ہاتھ میں ہو۔
ا ُس متنازعہ فلم پر اعتراض کرتے ہوئے جِس کی وجہ سے پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک میں مظاہرے ہو رہے ہیں، صدر زرداری نے کہا کہ ’’آزادیِ اظہار کے نام پر ایک یا دو پاگل افراد کو دنیا کا امن خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیئے‘‘۔
صدر زرداری نے امریکہ کی معاشی امداد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ اس امداد کو ہر شعبے میں پھیلانے کے بجائے امریکہ کو چاہیئے کہ چند بڑے پراجیکٹس پر اسے مرکوز کیا جائے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگلے ماہ لندن میں ہونے والی پاکستان انوسٹمنٹ کانفرنس سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ ، اُنہوں نے’ یو ایس پاکستان خواتین بزنس کونسل‘ کے آغاز کو بھی خوش آئند قرار دیا۔
اس ملاقات میں امریکہ کی طرف سے وزیر خارجہ کلنٹن کے علاوہ افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی مندوب مارک گروسمین، ڈپٹی وزیر خارجہ تھامس نائیڈز، پاکستان کے لیے نئے امریکی سفیر رچرڈ اولسن، جنہوں نے پیر کی صبح ہی اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہے، اور افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی صدر براک اوبامہ کے مشیر جنرل ڈگلس لوٹ شامل تھے۔
پاکستان کی طرف سے صدر زرداری کے علاوہ وزیر خارجہ حنا ربّانی کھر، سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی، امریکہ میں پاکستان کی سفیر شیری رحمان، چین میں پاکستان کے سفیر مسعود خان جن کا نام اگلے ماہ سے اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر کے عہدے کے لیے بھی نامزد کیا گیا ہے، وزیر برائے انسانی حقوق مصطفٰی نواز کھوکھر، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی اور ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستّار شامل تھے۔
ابتدائی بیس منٹ تک تمام لوگ ملاقات میں شریک رہے، جبکہ باقی وقت صرف صدر زرداری، وزیر خارجہ کلنٹن، نئے امریکی سفیر اولسن، اور پاکستانی سفیرشیری رحمان کے درمیان بات چیت جاری رہی۔
صدر زرداری چار روزہ دورے پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے اتوار کو نیو یارک پہنچے تھے۔ ان کے شیڈول میں امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کے علاوہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرز راس موسن اور چینی وزیر خارجہ جی ایچ ینگ اور مائیکروسافٹ کے سابق سربراہ اور معروف شخصیت بل گیٹس سے ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔