واشنگٹن —
دنیا بھر میں اسلام دشمن فلم کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے بارے میں ’کرسچن سائینس مانٹر‘ اخبار کہتا ہے کہ اِس میں غور طلب بات یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر مسلمان اِن مظاہروں میں تشدد کا سہارا نہیں لے رہے اور بہت سے اسلامی لیڈر پُرامن احتجاج کی حمائت کر رہے ہیں۔ لیکن، سنسرشپ کا مطالبہ نہیں کر رہے۔
چناچہ، اخبار کے خیال میں اِس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ آزادیٴ اظہار کا نظریہ ایک آفاقی حق کی حیثیت سے زور پکڑ رہا ہے۔
اخبار کہتا ہے کیا یہ عجب بات نہیں ہے کہ یُو ٹیوب پر اسلام کی اہانت کرنے والا وڈیو چشم زدن میں پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے جب کہ دنیا میں بہت سے ایسے ملک موجود ہیں جہاں آزادیٴ اظہارکو ایک آفاقی حق کے طور پر منوانے میں دشواری پیش آتی ہے۔
چناچہ، کیلی فورنیا میں 14منٹ طویل اِس وڈیو کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے جو پُر تشدد احتجاج ہورہے ہیں اُس میں یہ تضاد بہت نمایاں ہے: یعنی، ’اظہار‘ زیادہ اور ’آزادی‘ کم۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی سفارت کاروں کی ہلاکت اور تشدد کی وارداتوں کی خبروں کا بہت چرچا ہوا ہے۔ لیکن، اِس حقیقت کی طرف کم توجہ دی جارہی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت احتجاج نہیں کر رہی اور اسلامی عقیدے کے بہت سے لیڈر عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ اگر احتجاج کرنا ہی ہے تو اُسے پُرامن رکھو۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس سے یہ حقیقت آشکار ہورہی ہے کہ دنیا کے اُن حصوں میں جہاں پہلے آزادی اظہار سرے سے مفقود تھی وہاں بالآخر یہ آزادی جڑ پکڑ رہی ہے۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
یہ احتجاج عرب ممالک میں نئی بہار کی تحریک کے بعد زیادہ پھیل گئے ہیں۔ اُن میں بہت سے ممالک میں جمہوریت کا تجربہ نیا ہے اور مشرق وسطیٰ کے باہر ایسے اسلامی ملک ہیں جنھیں حال ہی میں مطلق العنان حکومتوں سے چھٹکارا ملا ہے، مثلاً پاکستان، انڈونیشیا اور افغانستان۔
اخبار کہتا ہے کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اہانت ِ مذہب کے قانون کی موجودگی سے فرقہ وارانہ چپقلش ختم نہیں ہوئی، بلکہ اِس میں اضافہ ہوگیا۔
اِسی طرح، بدزبانی کا مداوا سنسرشپ نہیں، بلکہ بہتر گفتار ہے۔ اور اسلام دشمن وڈیو کے جواب میں مسلمان کو یا تو خموشی اختیار کرنی چاہیئے یا پھر اسلام کے اُن نظریات کی تشہیر کرنی چاہیئے کہ وہ امن اور رواداری کا مذہب ہے۔
’واشنگٹن ٹائمز‘ کہتا ہے کہ محکمہٴ دفاع کے ایک نئے اعلان سے افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوجوں کے طریقہ ٴ کار میں تبدیلیاں آئیں گی۔ یہ اعلان افغانستان میں اِن افواج کے کمانڈر جنرل جان ایلن نے کیا ہے اور کہا ہے کہ دنیا بھر میں اِس وقت امریکہ کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں اور افغان سکیورٹی افواج کی طرف سے اندر ہی سے حملوں کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا ہے اس کے پیشِ نظر بٹالین کی سطح سے نیچے افغان نوجوان کو تربیت دینا اور اُن کے ساتھ کام کرنا بند کردیا گیا ہے۔
اخبار نے ایسو سی اٹیڈ پریس کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس سال 51بین الاقوامی فوجی ایسے افغانوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں جو یا تو افغان فوجی تھے یا اُن کی وردی پہنے ہوئے تھے۔
پاکستان کے وزیر اعظم کے سپریم کورٹ میں دیے گئے اس بیان پر کہ وہ سوٹزرلینڈ کے حکام کو صدر آصف علی زرداری کے خلا ف بدعنوانیوں کا مقدمہ دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں خط لکھیں گے ’لاس اینجلیس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ یہ فیصلہ صدر زرداری کی حکمراں پیپلز پارٹی کی حکمتِ عملی میں منقلب تبدیلی ہے جو تین سال تک ایسا خط لکھنے کی مزاحمت کرتی آئی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ سوٹزرلینڈ میں صدر زرداری کے خلاف یہ مقدمہ 2008ء سے معطل رہا ہے۔ اب اگر خط لکھا گیا تو سوٹزرلینڈ کے حکام کو رشوت ستانی سے متعلق یہ مقدمہ دوبارہ شروع کرنے کا اختیار ہے۔ لیکن، اخبار کا خیال ہے کہ اغلب یہی ہے کہ پاکستانی صدر کو سوٹزرلینڈ میں دوبارہ مقدمہ نہیں بھگتنا پڑےگا، کیونکہ اس میں کے حکام ہمیشہ سے مانتے آئے ہیں کہ اُنھیں مقدمے کے خلاف آئینی استثنیٰ حاصل ہے۔
اس مقدمے میں مسٹر زرداری اور اُن کی مرحومہ اہلیہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر رشوت لینے کا الزام تھا اور 2003ء میں دونوں کو اُن کی عدم موجودگی میں اس کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف اُن کی اپیل کے بعد یہ مقدمہ التوا میں پڑ گیا تھا اور 2008ء میں حکومتِ پاکستان کی درخواست پر واپس لیا گیا تھا۔
حکومت کے نئے مصالحانہ رویے پر اخبار نے مسٹر زرداری کے حامیوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس کا مقصد حکومت اور عدلیہ کے درمیان اُس اختلاف کو دور کرنا تھا جس کی وجہ سے ایسے وقت میں ملک کے سیاسی استحکام کو خطرہ لاحق تھا جب عام انتخابات ہونے والے ہیں۔
چناچہ، اخبار کے خیال میں اِس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ آزادیٴ اظہار کا نظریہ ایک آفاقی حق کی حیثیت سے زور پکڑ رہا ہے۔
اخبار کہتا ہے کیا یہ عجب بات نہیں ہے کہ یُو ٹیوب پر اسلام کی اہانت کرنے والا وڈیو چشم زدن میں پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے جب کہ دنیا میں بہت سے ایسے ملک موجود ہیں جہاں آزادیٴ اظہارکو ایک آفاقی حق کے طور پر منوانے میں دشواری پیش آتی ہے۔
چناچہ، کیلی فورنیا میں 14منٹ طویل اِس وڈیو کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے جو پُر تشدد احتجاج ہورہے ہیں اُس میں یہ تضاد بہت نمایاں ہے: یعنی، ’اظہار‘ زیادہ اور ’آزادی‘ کم۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی سفارت کاروں کی ہلاکت اور تشدد کی وارداتوں کی خبروں کا بہت چرچا ہوا ہے۔ لیکن، اِس حقیقت کی طرف کم توجہ دی جارہی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت احتجاج نہیں کر رہی اور اسلامی عقیدے کے بہت سے لیڈر عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ اگر احتجاج کرنا ہی ہے تو اُسے پُرامن رکھو۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس سے یہ حقیقت آشکار ہورہی ہے کہ دنیا کے اُن حصوں میں جہاں پہلے آزادی اظہار سرے سے مفقود تھی وہاں بالآخر یہ آزادی جڑ پکڑ رہی ہے۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
یہ احتجاج عرب ممالک میں نئی بہار کی تحریک کے بعد زیادہ پھیل گئے ہیں۔ اُن میں بہت سے ممالک میں جمہوریت کا تجربہ نیا ہے اور مشرق وسطیٰ کے باہر ایسے اسلامی ملک ہیں جنھیں حال ہی میں مطلق العنان حکومتوں سے چھٹکارا ملا ہے، مثلاً پاکستان، انڈونیشیا اور افغانستان۔
اخبار کہتا ہے کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اہانت ِ مذہب کے قانون کی موجودگی سے فرقہ وارانہ چپقلش ختم نہیں ہوئی، بلکہ اِس میں اضافہ ہوگیا۔
اِسی طرح، بدزبانی کا مداوا سنسرشپ نہیں، بلکہ بہتر گفتار ہے۔ اور اسلام دشمن وڈیو کے جواب میں مسلمان کو یا تو خموشی اختیار کرنی چاہیئے یا پھر اسلام کے اُن نظریات کی تشہیر کرنی چاہیئے کہ وہ امن اور رواداری کا مذہب ہے۔
’واشنگٹن ٹائمز‘ کہتا ہے کہ محکمہٴ دفاع کے ایک نئے اعلان سے افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوجوں کے طریقہ ٴ کار میں تبدیلیاں آئیں گی۔ یہ اعلان افغانستان میں اِن افواج کے کمانڈر جنرل جان ایلن نے کیا ہے اور کہا ہے کہ دنیا بھر میں اِس وقت امریکہ کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں اور افغان سکیورٹی افواج کی طرف سے اندر ہی سے حملوں کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا ہے اس کے پیشِ نظر بٹالین کی سطح سے نیچے افغان نوجوان کو تربیت دینا اور اُن کے ساتھ کام کرنا بند کردیا گیا ہے۔
اخبار نے ایسو سی اٹیڈ پریس کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس سال 51بین الاقوامی فوجی ایسے افغانوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں جو یا تو افغان فوجی تھے یا اُن کی وردی پہنے ہوئے تھے۔
پاکستان کے وزیر اعظم کے سپریم کورٹ میں دیے گئے اس بیان پر کہ وہ سوٹزرلینڈ کے حکام کو صدر آصف علی زرداری کے خلا ف بدعنوانیوں کا مقدمہ دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں خط لکھیں گے ’لاس اینجلیس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ یہ فیصلہ صدر زرداری کی حکمراں پیپلز پارٹی کی حکمتِ عملی میں منقلب تبدیلی ہے جو تین سال تک ایسا خط لکھنے کی مزاحمت کرتی آئی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ سوٹزرلینڈ میں صدر زرداری کے خلاف یہ مقدمہ 2008ء سے معطل رہا ہے۔ اب اگر خط لکھا گیا تو سوٹزرلینڈ کے حکام کو رشوت ستانی سے متعلق یہ مقدمہ دوبارہ شروع کرنے کا اختیار ہے۔ لیکن، اخبار کا خیال ہے کہ اغلب یہی ہے کہ پاکستانی صدر کو سوٹزرلینڈ میں دوبارہ مقدمہ نہیں بھگتنا پڑےگا، کیونکہ اس میں کے حکام ہمیشہ سے مانتے آئے ہیں کہ اُنھیں مقدمے کے خلاف آئینی استثنیٰ حاصل ہے۔
اس مقدمے میں مسٹر زرداری اور اُن کی مرحومہ اہلیہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر رشوت لینے کا الزام تھا اور 2003ء میں دونوں کو اُن کی عدم موجودگی میں اس کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف اُن کی اپیل کے بعد یہ مقدمہ التوا میں پڑ گیا تھا اور 2008ء میں حکومتِ پاکستان کی درخواست پر واپس لیا گیا تھا۔
حکومت کے نئے مصالحانہ رویے پر اخبار نے مسٹر زرداری کے حامیوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس کا مقصد حکومت اور عدلیہ کے درمیان اُس اختلاف کو دور کرنا تھا جس کی وجہ سے ایسے وقت میں ملک کے سیاسی استحکام کو خطرہ لاحق تھا جب عام انتخابات ہونے والے ہیں۔