صدر آصف علی زرداری نے کراچی میں قیام امن اور آئندہ انتخابات کی حکمت عملی مرتب کرنے کیلئے بلاول ہاؤس کراچی میں قیام بڑھا دیا ہے۔ یہاں رہتے ہوئے ایک طرف تو وہ سندھ میں اتحادی جماعتوں کے خدشات دور کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں تو دوسری جانب لیاری کے عوام کے اعتماد کی بحالی کو بھی ترجیح دے رہے ہیں ۔
صدر آصف علی زرداری نے 4 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی میں شرکت کے بعد اگلے روز لاہور کا دورہ کیا اور اس کے کچھ دن بعد وہ جنوبی پنجاب پہنچ گئے جہاں انہوں نے نہ صرف موجودہ دورحکومت میں ہی سرائیکی صوبے کے قیام کا ارادہ ظاہر کیا بلکہ ’جنوبی پنجاب بینک‘ کے منصوبے سے بھی آگاہ کیا ۔پیر کے روز وہ کراچی پہنچے تھے ۔ ان کے قیام کا آج دوسرا روز تھا ۔ اس دوران بلاول ہاؤس کراچی ، سیاسی سرگرمیوں کامرکز بنا رہا ۔
صدر زرداری کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کراچی میں امن وامان حکومت کیلئے ایک بڑا دچیلنج بنا ہوا ہے ۔ اگر صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ کراچی میں امن وامان کی صورتحال کی بنیادی وجہ میں بھتہ مافیا کا کلیدی کردار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پیر کو کراچی میں قدم رکھتے ہی وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے اعتراف کیا کہ تینوں اتحادی جماعتوں یعنی پیپلزپارٹی ، ایم کیو ایم اور اے این پی کے کارکنان بھتہ مافیا کا حصہ ہیں ۔
یہ پہلا موقع ہے کہ جب انہوں نے اس حوالے سے کوئی تکلف نہیں برتا ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے لیاری کا نام لیے بغیر اشارہ کیا کہ آپریشن کی وہی لوگ مخالفت کرتے ہیں جو جرائم پیشہ ہوتے ہیں ۔
رحمن ملک کی ان دونوں باتوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی آئندہ انتخابات سے قبل ہر صورت میں کراچی میں امن قائم کرنا چاہتی ہے اور اس کیلئے شہر میں جلد بھر پور آپریشن بھی ہو سکتا ہے ۔ دوسری طرف لیاری جو ہمیشہ سے پیپلزپارٹی کا گڑھ رہا ہے وہاں کے لوگوں کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ منگل کو صدر زرداری کی زیر صدارت لیاری سے متعلق اہم اجلاس منعقد کیا گیا جس میں صدر زرداری نے لیاری کے کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ مشتعل نہ ہوں اور قانون ہاتھ میں نہ لیں۔ انہوں نے لیاری میں تمام ترقیاتی منصوبے جلد مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی ۔
اس کے ساتھ ساتھ صدر نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی حکم دیا کہ لیاری کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کیلئے طاقت کا بھر پور استعمال کیا جائے اور لیاری میں ہر صورت امن و امان کا قیام یقینی بنایا جائے ۔
اس کے علاوہ اگر چہ سیاسی محاذ پر بظاہر حکمران جماعت پیپلزپارٹی کے اپنے اتحادیوں سے مثالی تعلقات نظر آ رہے ہیں تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ بلدیاتی نظام اور سندھ میں کوٹہ سسٹم پر اختلافات ایسے مسائل ہیں جو پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے تعلقات کی بنیادوں میں ایک چنگاری کی طرح سلگ رہے ہیں اورکسی بھی وقت یہ شعلے کی صورت اختیار کر سکتے ہیں ۔ اس تما م تر صورتحال کا ماضی بھی گواہ ہے ۔
صدر آصف علی زرداری سے پیر کو ایم کیو ایم کے وفد نے ملاقات کی اور بلدیاتی نظام سے متعلق طوالت پر سخت تحفظات ظاہر کیے ۔گزشتہ سال اگست میں جب ایم کیو ایم ناراض تھی تو پیپلزپارٹی نے سندھ میں کمشنری نظام نافذ کر دیا گیا ۔اس کے بعد دونوں جماعتوں نے نیا بلدیاتی نظام لانے کی کوشش کی اورمشترکہ کور کمیٹی تشکیل دی گئی مگر لاتعداد اجلاسوں کے باوجود کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکا ۔
اسی طرح کوٹہ سسٹم کے خاتمہ پر بھی ایم کیو ایم کا انتہائی سخت موقف سامنے آ رہا ہے ۔عام تاثر یہ ہے کہ کوٹہ سسٹم کے باعث ہی شہر کے درو دیوار پر الگ صوبے کے مطالبات نظرآ رہے ہیں ۔مبصرین کے مطابق صدر زرداری اگر اس صورتحال کا بھی مفاہمتی حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ آئندہ انتخابات میں بھی سندھ کی سیاست پر اپنارسوخ قائم رکھ سکیں گے ۔
صدر نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا کہ لیاری کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کیلئے طاقت کا بھر پور استعمال کیا جائے اور لیاری میں ہر صورت امن و امان کا قیام یقینی بنایا جائے ۔