وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے صدر آصف علی زرداری کے اتوار کو دورہ بھارت کے فیصلہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ خالصتاً نجی دورہ ہے جس کا بنیادی مقصد اجمیر شریف میں حضرت خواجہ غریب نواز کے مزار پر حاضری دینا ہے۔
صدر زرداری کے اس دورے اور اس دوران دوپہر کے کھانے پر بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سے ان کی ملاقات کے بارے میں حزب اختلاف کی تنقید اور تحفظات کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم گیلانی نے ایوان کو یقین دہانی کرائی کہ بھارتی رہنماء سے صدر مملکت کے مذاکرات کے بارے میں پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
’’خالصتاً ایک عقیدے کے مطابق صدر بھارت جا رہے ہیں اور یہ ان کا نجی دورہ ہے۔ (اپوزیشن) نے کہا کہ وہاں بنیادی دوطرفہ مسائل پر بات ہو گی تو میں (ایوان کو) یہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ آپ کی حکومت ذمہ دار ہے اور بھارت کے ساتھ جاری مذاکرات میں مسئلہ کشمیر سمیت تمام حل طلب معاملات پر بات چیت ہو رہی ہے۔‘‘
حزب اختلاف کی جماعتیں صدر زرداری کے بھارت کے دورے کی مخالفت کر رہی ہیں جس کا اظہار جمعرات کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں بھی کیا گیا۔ قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت کے دورے سے قبل حکومت کا فرض تھا کہ وہ اس بارے میں پارلیمان کو اعتماد میں لیتی۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ صدر زرداری کی بھارتی رہنماؤں سے بات چیت کے بارے اراکین پارلیمنٹ کو آگاہ کیا جائے۔
حزب اختلاف کی تنقید پر وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے پاکستانی صدر کے دورہ بھارت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے اس نجی دورہ کے دوران کسی بھارتی رہنماء سے ملاقات کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی اور وزیراعظم منموہن سنگھ کی طرف سے ظہرانے کی دعوت قبول کرنے کا مشورہ وزارت خارجہ نے ہی دیا ہے۔
’’ہم سارے جانتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کی روایات ہیں کہ جب بھی کوئی آپ کے گھر آتا ہے تو اسے ضرور دن یا رات کے کھانے پر مدعو کرتے ہیں اور مجھے اس میں کوئی برائی نہیں لگتی۔‘‘
اس سے قبل دفتر خارجہ کی ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب میں ترجمان عبدالباسط نے کہا کہ صدر زرداری کی نئی دہلی میں بھارتی وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کے ساتھ ہونے والی ملاقات سے خطے میں امن و خوشحالی کی کوششوں کو فروغ ملے گا۔
’’بات چیت میں وہ تمام معاملات زیر بحث آئیں گے جنھیں دو طرفہ تعلقات میں ترجیحی حیثیت حاصل ہے اور پاکستان دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک تعمیری رابطے کی توقع کر رہا ہے۔‘‘
ترجمان نے کہا کہ سربراہان کی سطح پر ایسی ملاقاتیں دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے ہمیشہ مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ انھوں نے ایک بار پھر ان قیاس آرائیوں کی نفی کی کہ تنازع کشمیر سے متعلق پاکستان کے روایتی موقف میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔
’’پاکستان کا ماننا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل، جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام کے لیے ناگزیر ہے اس لیے کشمیر تنازع سے متعلق موقف میں تبدیلی کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔‘‘
صدر زرداری آٹھ اپریل کو نجی دورے پر بھارت جائیں گے، تاہم وزیرِاعظم من موہن سنگھ کی طرف سے نئی دہلی میں مختصر قیام اور دوپہر کے کھانے کی دعوت قبول کرنے کے بعد صدر زرداری کا یہ دورہ ذرائع ابلاغ اور مبصرین کے تبصروں اور توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
گزشتہ سات سال کے دوران کسی بھی پاکستانی صدر کا یہ پہلا دورہ بھارت ہو گا اور دونوں پڑوسی ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان یہ ملاقات ایسے وقت ہو رہی ہے جب حالیہ مہینوں میں دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔