برطانیہ کے سائنس دان اس بارے میں تحقیق کررہے ہیں کہ آیا ذکا کی بیماری پھیلانے والے وائرس کو دماغ کے کینسر کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کا تجربہ کامیاب رہا تو کینسر کی اس قسم کے خلاف جنگ کو موثر طور پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
طبی ماہرین کی توجہ دماغ کے بہت عام قسم کے کینسر پر مرکوز ہے جس میں مبتلا ہونے والے محض پانچ فی صد افراد ہی بمشکل پانچ سال زندہ رہ سکتے ہیں۔
ذکا کا مرض بچوں میں شدید نوعیت کی معذوری کا سبب بنتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا حملہ دماغ کے خلیوں پر ہوتا ہے۔ لیکن بالغ افراد کے دماغ کی چونکہ نشوونما مکمل ہو چکی ہوتی ہے اس لیے انہیں محض فلو جیسی کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کینسر کی اس قسم میں جسے گیلیو بلاسٹوما کہا جاتا ہے، کینسر سے متاثرہ خلیے تقریباً اسی نوعیت کے ہوتے ہیں جس طرح تکمیل کے مرحلے طے کرنے والے بچوں کے دماغ کے خلیے ہوتے ہیں۔سائنس دانوں کا خیال ہے کہ جس طرح ذکا وائرس بچوں کے دماغ کے خلیوں کو متاثر کرتا ہے اسی طرح وہ کینسر زدہ دماغ کے خلیوں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت جو علاج کیا جا رہا ہےاس میں دماغ کے صحت مند خلیوں کو نقصان سے بچانے کے لیے انہیں کم طاقت کی دوائیں دی جاتی ہیں۔
کیمبرج یونیورسٹی کے ہیری بولسٹروڈ ، جو اس تحقیق کی قیادت کررہے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ چوہے کےدماغ کے کینسر زدہ خلیوں پر ذکا وائرس کا استعمال کر کے اس کے اثرات کا مطالعہ کریں گے۔
مچھر میں پیدا ہونے والا یہ وائرس 60 سے زیادہ ملکوں کو اپنا نشانہ بناچکا ہے ۔ اس مرض کا پہلی بار انکشاف 2015 میں برازیل میں ہوا تھا۔
بولسٹروڈ کہتے ہیں کہ ذکا وائرس نوزائیدہ بچوں کے حوالے سے ایک خطرناک مرض ہے اور اس وائرس پر قابو پانے کے لیے مختلف طریقوں پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم اس وائرس کو ایک مختلف انداز میں دیکھ رہے ہیں اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا ہم اسے دماغ کے کینسر زدہ خلیوں کو مارنے کے لیےاستعمال کر سکتے ہیں؟
بولسٹروڈ کا کہنا تھا کہ ہمیں توقع ہے کہ اگر ہم ذکا وائرس کو کینسرسے متاثرہ خلیوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے تو ہم اس کے پھیلنے کی رفتار کو سست کرسکتے ہیں اور مستقبل میں ا س کے مکمل علاج کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔