پاکستان نے زیکا وائرس کی تشخیص اور اس خطرے سے نمٹنے کے لیے عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ سے تکنیکی مدد طلب کی ہے۔
صحت کی سہولتوں سے متعلق وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگومیں اعتراف کیا کہ پاکستان کے پاس اس وائرس کی تشخیص کی سہولت موجود نہیں ہے۔
’’جس دن زیکا وائرس (سامنے آیا) اور ڈبلیو ایچ او نے اپنی سفارشات دی، ہم نے یہاں ایک اجلاس بلایا اس میں تمام صوبائی حکام نے شرکت کی۔ زیکا وائرس کی تشخیص کرنے کی سہولت پاکستان میں موجود نہیں ہے لیکن ہم نے ڈبلیو ایچ او سے کہا ہے کہ وہ ہمیں کٹ فراہم کریں۔‘‘
زیکا وائرس گزشتہ سال جنوبی امریکہ میں منظر عام پر آیا جس کے بعد یہ خطے کے کئی ممالک میں میں تیزی سےپھیل گیا ہے جب کہ عالمی ادارہ صحت اسے دنیا کے دیگر ممالک کے لیے بھی خطرہ قرار دے چکا ہے۔
یہ وائرس ایک مخصوص مچھر کے کاٹنے سے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس وائرس کا تاحال کوئی بھی کیس سامنے نہیں آیا ہے تاہم ذرائع ابلاغ کے مطابق زیکا وائرس کا سبب بننے والے مچھر کی پاکستان میں موجودگی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
لیکن سرکاری طور پر اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے کہا ہے کہ حکومت اس خطرے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
’’ہم نے اپنا ہوم ورک کیا ہے ایبولا کے وقت بھی جن پانچ چھ مشتبہ کیسز کی پاکستان نے نشاندہی کی تھی وہ ہمارے اپنے لوگوں نے کی تھی اس لیے زیکا وائرس کے تدارک کے لیے ہم تیار ہیں۔‘‘
ماہرین صحت کا ماننا ہے کہ زیکا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی انفیکشن طبی لحاظ سے سنگین خطرہ تو نہیں تاہم جنوبی امریکہ میں چھوٹے سر کے بچوں کی پیدائش اور دیگر اعصابی عوارض کے اس وائرس سے تعلق کو غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے۔
اسی بنا پر عالمی ادارہ صحت یہ کہہ چکا ہے متاثرہ ممالک میں اس خطرے کو کم کرنے اور اسے عالمی سطح پر پھیلنے سے روکنے کے لیے مربوط عالمی کوششوں کی ضرورت ہے۔