|
فیس بک کی مالک کمپنی میٹا کے سربراہ زکربرگ نے امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کو بتایا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے سینئر عہدے داروں نے کوویڈ۔19 کی عالمی وبا کے پھیلاؤ کے دور میں ان کی کمپنی پر اس بیماری سے متعلق کچھ مواد روکنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت ان کمپنی نے جو انتخاب کیا تھا، آج وہ اس طرح کا فیصلہ نہیں کرے گی۔
امریکی کانگریس کی جوڈیشری کمیٹی نے پیر کے روز زکربرگ کا خط جاری کیا ہے۔
زکربرگ نے اپنے خط میں مزید کہا ہے کہ جس مواد کو سینسر کیا گیا تھا، اس میں طنز اور مزاح بھی شامل تھا، اور جب ہم نے اس سے اتفاق نہیں کیا تو انتظامیہ کے عہدے داروں نے ہماری ٹیموں کے ساتھ شدید برہمی اور مایوسی کا اظہار کیا تھا۔
زکربرگ کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ حکومتی دباؤ غلط تھا اور مجھے افسوس ہے کہ ہم نے اس بارے میں زیادہ کھل کر بات نہیں کی تھی۔
جب زکربرگ کے ان تبصروں کے بارے میں ردعمل کے لیے وائٹ ہاؤس سے رابطہ کیا گیا تو ایک ترجمان نے کہا کہ ہلاکت خیز وبائی مرض کا سامنا ہونے کے وقت ، صدر کی انتظامیہ نے صحت عامہ اور تحفظ کے لیے ذمہ دارانہ اقدامات کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا موقف واضح اور مستقل رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ٹیک کمپنیوں اور دوسرے پرائیویٹ کرداروں کو اپنے اقدامات کے نتیجے میں امریکی عوام پر مرتب ہونے والے اثرات کو مدنظر رکھنا چاہیے، جب کہ وہ اپنی پیش کردہ معلومات کا انتخاب آزادانہ طور پر کرتے ہیں۔
SEE ALSO: امریکی سپریم کورٹ سوشل میڈیا کمپنیوں کو مواد کا ذمہ دار کیوں نہیں ٹھہراتی؟زکربرگ نے 2020 کے صدارتی انتخابات سے قبل اپنی 40 کروڑ ڈالر کی خیراتی تنظیم کی کوششوں کا بھی ذکر کیا، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ فاؤنڈیشن کا مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ عالمی وبا کے دوران شہری اور دیہی کمیونیٹیز کے پاس ایسے وسائل موجود ہیں کہ لوگ اپنا ووٹ محفوظ طریقے سے ڈال سکیں۔
SEE ALSO: 'میٹاورس' صارفین کے لیے ورچوئل زندگی کا نیا تصوراپنے خط میں زکربرگ نے مزید کہا ہے کہ ان تجزیات کے باوجود، جنہیں میں نے مختلف صورت بیان کرتے ہوئے دیکھا ہے، میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کام سے ایک فریق کو دوسرے کی نسبت زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ میرا مقصد غیر جانب دار رہنا اور کسی بھی انداز میں کوئی بھی کردار ادا نہ کرنا ہے۔ اس لیے میں اس سلسلے میں اس طرح کی شراکت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
یہ خط نومبر میں امریکہ میں ہونے والے عام انتخابات سے محض دو ماہ قبل منظر عام پر آیا ہے۔
(وی او اے نیوز)