رسائی کے لنکس

امریکی سپریم کورٹ سوشل میڈیا کمپنیوں کو مواد کا ذمہ دار کیوں نہیں ٹھہراتی؟


گوگل، ٹوئٹر، فیس بک اور سوشل میڈیا کی مدد سے چلنے والی دیگر ٹیک کمپنیوں نے اس ہفتے اس وقت سکھ کا سانس لیا جب امریکہ کی اعلی ترین عدالت نے ان پلیٹ فارمز کو ان پر موجود مواد کا ذمہ دار ٹھہرانے سے انکار کر دیا۔

ججز نے نچلی عدالت کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا جس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ترکی کے ایک نائٹ کلب پر مہلک حملے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے اس سے ملتا جلتا ایک اور مقدمہ نچلی عدالت کو کارروائی کیے بغیر واپس لوٹا دیا۔

عرصے سے عالمی دبا کی شکار کمپنیوں کو ایک قانونی شق نے بچا ئے رکھاہے۔ لیکن ماہرین کی نظر میں عدالتی فیصلے کے باوجود بھی یہ قانون انٹرنیٹ کمپنیوں کے کاروباری ماڈلز میں بہت بڑا خلا ثابت ہو سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ان مقدمات میں زبانی دلائل سننے کے تین ماہ بعد سیکشن 230 کے نام سے موسوم ایک قانون کے تحت آیا ہے۔ یہ قانون انٹرنیٹ کمپنیوں کو ان پر موجود مواد کی بنا پر مقدمات کے ذریعے انہیں مورد الزام ٹھہرانے سے محفوظ رکھتا ہے۔

پاکستان میں پوڈکاسٹنگ اتنی مقبول کیسے ہوئی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:24 0:00

استثنیٰ فراہم کرنے والا یہ قانون سن 1996 میں اختیار کی گئی امریکی ٹیلی کمیونیکیشنز کی وسیع تر اصلاحات کے اندر محض 26 الفاظ پر مشتمل ہے۔

اس کے بغیر، گوگل، فیس بک اور دیگر ٹیک کمپنیاں شاید اتنی بڑی تعداد میں ترقی نہ کر پاتیں جتنی کہ انہوں نے اب تک کی ہے۔

خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر انٹرنیٹ کمپنیوں کے پلیٹ فارم سے قانونی استثنیٰ چھین لیا جائے تو ان کے مستقبل کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔

لیکن صرف اس وجہ سے کہ سپریم کورٹ نے اس خار دار معاملے کو فی الحال پس پشت ڈال دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آئندہ ایسے دوسرے کیسز نہیں لائے جائیں گے جن کے نتیجے میں منفی فیصلے ہو سکتے ہیں۔

جسٹس ایلینا کاگن نے فروری کے زبانی دلائل کے دوران اپنے اور اپنے ساتھیوں کے بارے میں کہا کہ "ہم واقعی ان چیزوں کے بارے میں نہیں جانتے۔ آپ جانتے ہیں، یہ انٹرنیٹ کے نو عظیم ماہرین کی طرح نہیں ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے کو امریکی قانون سازوں کی جانب سے بہترین طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔

رواں سال اس معاملے پر اعلیٰ سطحی زبانی دلائل نے اس وسیع پیمانے پر پائے جانے والے احساس کو بھی اجاگر کیا کہ کانگریس کو اس قانون پر نظر ثانی کرنی چاہیے جو فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کے بالغ ہونے سے پہلے اپنایا گیا تھا۔

اس قانونی تحفظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی نیوز سائٹ آپ کو دھوکہ دینے والا یا جھوٹا کہتی ہے، تو آپ پبلشر پر توہین کا مقدمہ کر سکتے ہیں۔

لیکن اگر کوئی ایسی بات کو فیس بک پر پوسٹ کرتا ہے تو آپ کمپنی پر مقدمہ نہیں کر سکتے، صرف اس شخص پر جس نے اسے پوسٹ کیا ہے۔

سال 1996 کے کمیونیکیشن ڈیسنسی ایکٹ کے سیکشن 230 میں کہا گیا ہے کہ کسی "انٹرایکٹو کمپیوٹر سروس" کے ساتھ معلومات فراہم یا شیئر کرنے والے یا صارف اور معلومات کے ناشر یا اسپیکر کے طور پر سلوک نہیں کیا جائے گا۔

یہ قانونی نقطہ اپنے پلیٹ فارمز پر کھربوں پیغامات کی میزبانی کر نے والی کمپنیوں کو مقدمات سے بچاتا ہے۔ ایسے مقدمات ان اشخاص کی طرف سے چلائے جانے ہیں جو کسی اور کی پوسٹ کی گئی کسی چیز سے غلط محسوس کرتے ہے، چاہے ان کی شکایت جائز ہو یا نہیں۔

امریکہ کی دونوں پارٹیوں یعنی ڈیمو کریٹ اور ری پبلیکن سے وابستہ سیاست دان مختلف وجوہات کی بنا پر استدلال کرتے ہیں کہ ٹوئٹر فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے اس تحفظ کا غلط استعمال کیا ہے اور ان کو فراہم کیا گیا یہ استثنیٰ ختم کر دینا چاہیے، یا کم از کم ان کمپنیوں کو حکومت کی طرف سے مقرر کردہ تقاضوں کو پورا کر کے اسے حاصل کرنا ہو گا۔

یہ قانون سوشل پلیٹ فارمز کو ان پوسٹس کو ہٹا نے کی اجازت بھی دیتا ہے جومثال کے طور پر فحش ہیں یا سروسز کے معیارات کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ البتہ ایسا کرتے ہوئے ان کمپنیوں کا"نیک نیتی" سے کام کرنا ضروری ہے۔

(اس خبر میں شامل مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG