پاکستان میں منگل کو عید الاضحی کا دوسرا دن تھا۔ یہ دن عمومی طور پر گھومنے پھرنے یا پھر رشتے داروں کے گھر آنے جانے اور ملنے ملانے میں گزارا جاتا ہے کیوں کہ نوے فیصد گھرانوں میں عید کے پہلے دن قربانی ہوچکی ہوتی ہے ۔ جن دس فیصد گھروں میں عید کے دوسرے دن قربانی ہوتی ہے وہ بھی صبح ہی صبح جانور کو ذبح کرکے فارغ ہوجاتے ہیں اور شام تک رشتے داروں کے یہاں گوشت باٹتے رہتے ہیں۔ ان دونوں ہی صورتوں میں زور عزیزواقارب سے ملنے ملانے پر رہتا ہے۔
عید الاضحی کے دنوں میں گوشت کے پکوان کھانے کی روایت شاید اتنی ہی قدیم ہے جتنی قربانی کی سنت۔ گھر میں قربانی ہو اور نئے نئے پکوان نہ بنیں یہ بھلا کس طرح ممکن ہے۔ کراچی کی بات کریں تو یہاں تکے کھانے اور پکانے کا رواج ہے بہت پرانا ہے۔ عید کے دوسر ے دن بیشترشادی شدہ افراد سسرال کا رخ کرتے ہیں جہاں سہ پہر سے ہی تکوں کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ دامادوں کو سسرال میں بنے تکوں کا سوچ کر ہی منہ میں پانی آجاتا ہے۔ ایسے میں بیٹیاں بھی اپنے میکے والوں کی طرف سے ہونے والی اس دعوت پر پھولے نہیں سماتیں۔
یوں تو تکوں کو رات کے کھانے میں پیش کیاجاتا ہے مگر اس کی تیاری سہ پہر سے ہی شروع ہوجاتی ہے ۔سب سے پہلے گوشت کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر ان پر تکوں کا مصالحہ لگایا جاتا ہے۔ گوشت کو گلانے کے لئے مصالحے میں ہی کچا پپیتا یا ’کچری‘ملادی جاتی ہے ۔ اس کے بعد مصالحہ لگے تکوں کو کچھ گھنٹوں کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ مصالحہ اچھی طرح گوشت کے ساتھ مل جائے ۔
مغرب ہوئی نہیں کہ گھرکے مرد کھلے صحن میں یا چھت پر جاکر عارضی انگیٹھی جلانے میں لگ جاتے ہیں۔ اس تکہ پارٹی کو مزید یادگار اور اس موقع پر ہلاگلہ کرنے کی غرض سے داماد بھی میدان میں کود پڑتے ہیں۔ بھلے ہی وہ ساراسال چولہے کے پاس نہ جاتے ہوں مگر تکہ پارٹی میں ان کا بھی بھر پور حصہ ہوتا ہے۔ وہ بھاگ بھاگ کر کام کرنے لگتے ہیں۔
انگیٹھی کے لئے کوئلے لانا یا منگوانا، مٹی کے تیل کا انتظام ، کوئلوں کو سلگاتے وقت ہوا کرنے کی غرض سے ہاتھ کے پنکھے کا بندوبست کرنا، سیخیں لانا، انہیں دھونا، سیخوں پر بوٹیاں لگانا، گرما گرم تکے اتار کر پلیٹوں میں رکھنا، اس پر پیاز اور لیموں چھڑکنا ۔۔۔ساتھ میں کولڈ ڈرنک ، ، دہی ، رائتہ اور چٹنی کا انتظام ۔۔وغیرہ وغیرہ ایسے کام ہیں جو عید کے دوسرے دن عموماً ہر گھر میں ہونے والی تکہ پارٹی میں مردوں کی جانب سے بڑے چاوٴ کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔
عید کے دوسرے یا تیسرے دن کی پارٹیاں صرف تکوں تک ہی محدود نہیں رہتیں بلکہ ان پارٹیوں میں بریانی، کباب، کوفتہ، بھنا گوشت، بھنی ران، ہنٹر بیف، بہاری بوٹی، ریشمی کباب، چپلی کباب، شامی کباب۔۔۔غرض کے ڈھیرسارے گوشت کے پکوان پیش کئے جاتے ہیں۔
گوشت کھانے کی اسی روایت سے آگاہی کا فائدہ سبزی فروخت کرنے والے بھی خوب اٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عید کی آمد سے دوچار دن پہلے ہی لہسن، ادرک، پیاز، ہرادھنیا، ہری مرچ، لیموں ، کھیرا، مولی اور گاجر سمیت بہت سی سبزیوں کے ریٹ آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔
ان پارٹیوں کے حوالے سے کراچی کے باسیوں کا کہنا ہے کہ بقرعید پر پکوانوں اور پارٹیوں کا خصوصی انتظام نہ ہوتو پھر عید کس چیز کی؟ کراچی ہی کے ایک بزرگ عبدالوحید کا کہنا ہے کہ یہ پارٹیاں ہی دراصل عید کا مزہ دوبالا کرتی ہیں۔ تہوار نام ہے معمول کی زندگی سے ہٹ کر کچھ کرنے کا ۔۔مزے اڑانے کا۔ اور تہوار پر ہی یہ اہتمام نہ ہوں تو پھر عام دنوں اور تہواروں میں فرق کیا رہ جائے گا۔ “
ایک اور شہری سبط حسن کا کہنا ہے ”میرے گیارہ بچے ہیں۔ سات لڑکیاں اور چار لڑکے۔ عید ، بقر عید پر جب سارے بچے ۔۔اور ان کے بچے اکھٹے ہوتے ہیں تو زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ تب پتہ لگتا ہے کہ رشتے انسان کے لئے کیوں ضروری ہوتے ہیں۔ سات داماد جب اپنے بچوں کے ساتھ گھر آتے ، تکہ پارٹیوں کا اہتمام کرتے اور اپنے چاروں سالوں اور سلج کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے اور ملکر کھانا کھاتے ہیں تو جی چاہتا ہے روز عید اور بقر عید ہو۔ “