امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ یہ بات ’قابل برداشت ‘ نہیں ہوگی کہ روس اور چین صدر بشار الاسد کی حمایت کرکے شام کے بحران کے پُرامن حل کی راہ میں روڑے اٹکانے کی روش جاری رکھیں۔
وائس آف امریکہ کے محکمہٴ خارجہ سے متعلق نامہ نگار اسکاٹ اسٹیئرنس نے خبر دی ہے کہ ہلری کلنٹن نے پیرس میں منعقدہ اسد مخالفین کے حامی ممالک کے ایک اجلاس کو بتایا کہ اقوام متحدہ کو دمشق کے خلاف معاشی پابندیاں عائد کرنی چاہئیں۔
جوں جوں شام میں لڑائی جاری ہے اور زٕخمی شہری علاج کی خاطر سرحد پار ترکی جانے پر مجبور ہیں، شامی مخالفین کے حامی حکومتِ شام پر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہےہیں۔
پیرس میں منعقدہ ’ فرینڈز آف سیریئن پیپل ‘ کے ایک اجلاس میں تقریباً 100ممالک کے عہدے دار روس اور چین کی طرف سے عبوری حکومت تشکیل دیے جانے کے لیے ایک اتھارٹی کے قیام پر اتفاق کے معاملےکو خوش آئند سمجھتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نےاس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔
اُن کے بقول، ہمیں دوبارہ سکیورٹی کونسل سے رجوع کرکے ایک قرارداد پیش کرنی چاہیئے جس کے تحت عالمی ادارے کی ہدایات پر عمل درآمد نہ کرنےکی صورت میں بامعنی اور فوری نتائج کی دھمکی دینی چاہیئے۔ سلامتی کونسل کی شق نمبر سات کے تحت پابندیاں لگایا جانا بھی شامل ہے۔
ہلری کلنٹن نے کہا کہ اس کا مقصد روس اور چین کی طرف سے دی جانے والی یقین دہانی کی پاسداری کرانا ہے، جس کا ہفتے کے روز جنیوا میں گروپ کے اجلاس کے دوران اُنھوں نے یقین دلایا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ روس اور چین یہ سمجھتے ہیں کہ اُنھیں اسد حکومت کے ساتھ کھڑے رہنے کی کوئی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ واحد راستہ یہ ہے کہ اس میٹنگ میں موجود ہر ایک ملک براہِ راست اور فوری طور پر یہ واضح کرے کہ روس اور چین کو اِس کی قیمت چکانی پڑے گی اِس لیے کہ وہ پیش رفت میں رخنہ اندازی کر رہے ہیں اور یہ مزید ناقابلِ برداشت ہے۔
جرمن وزیر خارجہ گائدو ویتویل کا کہنا تھا کہ جنگ بندی ضروری ہے۔
شام کے اپوزیشن راہنماؤں نے قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات کی روشنی میں اسد کے بعد کے شام کےتناظر میں اپنے نصب العین کی وضاحت کی۔
آسٹریلیا کے وزیر خارجہ باب کار کا کہنا تھا کہ یہ بات واضح ہے کہ عبوری دور میں صدر اسد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے کہا کہ پیرس میں اکٹھے ہونے والے’ فرینڈز آف سیریئن پیپل‘ میں سے چند اسد حکومت کے خلاف عائد پابندیوں سے صرف نظر کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے محکمہٴ خارجہ سے متعلق نامہ نگار اسکاٹ اسٹیئرنس نے خبر دی ہے کہ ہلری کلنٹن نے پیرس میں منعقدہ اسد مخالفین کے حامی ممالک کے ایک اجلاس کو بتایا کہ اقوام متحدہ کو دمشق کے خلاف معاشی پابندیاں عائد کرنی چاہئیں۔
جوں جوں شام میں لڑائی جاری ہے اور زٕخمی شہری علاج کی خاطر سرحد پار ترکی جانے پر مجبور ہیں، شامی مخالفین کے حامی حکومتِ شام پر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہےہیں۔
پیرس میں منعقدہ ’ فرینڈز آف سیریئن پیپل ‘ کے ایک اجلاس میں تقریباً 100ممالک کے عہدے دار روس اور چین کی طرف سے عبوری حکومت تشکیل دیے جانے کے لیے ایک اتھارٹی کے قیام پر اتفاق کے معاملےکو خوش آئند سمجھتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نےاس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔
اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے ...
اُن کے بقول، ہمیں دوبارہ سکیورٹی کونسل سے رجوع کرکے ایک قرارداد پیش کرنی چاہیئے جس کے تحت عالمی ادارے کی ہدایات پر عمل درآمد نہ کرنےکی صورت میں بامعنی اور فوری نتائج کی دھمکی دینی چاہیئے۔ سلامتی کونسل کی شق نمبر سات کے تحت پابندیاں لگایا جانا بھی شامل ہے۔
ہلری کلنٹن نے کہا کہ اس کا مقصد روس اور چین کی طرف سے دی جانے والی یقین دہانی کی پاسداری کرانا ہے، جس کا ہفتے کے روز جنیوا میں گروپ کے اجلاس کے دوران اُنھوں نے یقین دلایا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ روس اور چین یہ سمجھتے ہیں کہ اُنھیں اسد حکومت کے ساتھ کھڑے رہنے کی کوئی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ واحد راستہ یہ ہے کہ اس میٹنگ میں موجود ہر ایک ملک براہِ راست اور فوری طور پر یہ واضح کرے کہ روس اور چین کو اِس کی قیمت چکانی پڑے گی اِس لیے کہ وہ پیش رفت میں رخنہ اندازی کر رہے ہیں اور یہ مزید ناقابلِ برداشت ہے۔
جرمن وزیر خارجہ گائدو ویتویل کا کہنا تھا کہ جنگ بندی ضروری ہے۔
شام کے اپوزیشن راہنماؤں نے قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات کی روشنی میں اسد کے بعد کے شام کےتناظر میں اپنے نصب العین کی وضاحت کی۔
آسٹریلیا کے وزیر خارجہ باب کار کا کہنا تھا کہ یہ بات واضح ہے کہ عبوری دور میں صدر اسد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے کہا کہ پیرس میں اکٹھے ہونے والے’ فرینڈز آف سیریئن پیپل‘ میں سے چند اسد حکومت کے خلاف عائد پابندیوں سے صرف نظر کر رہے ہیں۔