رسائی کے لنکس

افغانستان: مختلف الزامات میں خواتین سمیت 12 افراد کو سرِ عام کوڑے مارنے کی سزا


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

  • خوست اور پروان صوبوں میں عدلیہ، انتظامی عملے اور عام شہریوں کی موجودگی میں سزائیں دی گئیں: طالبان حکومت کی سپریم کورٹ کا اعلان
  • ملزمان میں سے ہر ایک کو زیادہ سے زیادہ 39 کوڑوں اور قید کی سزا دی گئی۔
  • سزائیں صوبائی عدالتوں نے دی تھیں جن پر عمل درآمد اعلیٰ عدلیہ کی منظوری سے ہوا: سپریم کورٹ
  • اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی دیگر عالمی تنظیمیں کوڑے مارنے اور دیگر جسمانی سزاؤں کو بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتی ہیں۔

اسلام آباد افغانستان میں طالبان عہدے داروں نے جمعرات کو کہا ہے کہ مختلف جرائم میں ملوث دو خواتین سمیت 12 افراد کو سرِعام کوڑے مارے گئے ہیں۔

طالبان حکام کے مطابق ان افراد کو زنا، بدفعلی، شادی کے لیےگھر سے بھاگنے اور "ناجائز تعلقات" رکھنے کے الزامات میں مقدمات کا سامنا تھا۔

طالبان حکومت کی سپریم کورٹ نے سزاؤں کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ خوست اور پروان صوبوں میں عدلیہ، انتظامی عملے اور عام شہریوں کی موجودگی میں سزا پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔

ملزمان میں سے ہر ایک کو زیادہ سے زیادہ 39 کوڑے مارنے اور آٹھ ماہ سے تین سال تک قید کی سزا سنائی گئی۔ سپریم کورٹ نے بتایا کہ سزائیں صوبائی عدالتوں کی جانب سے دی گئی تھیں جن پر اس کی منظوری کے بعد عمل کیا گیا۔

سپریم کورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق صرف رواں ماہ کم از کم 35 افغان شہریوں کو سرِعام کوڑے مارے گئے ہیں۔

افغانستان بھر میں کھیلوں کے اسٹیڈیمز میں سینکڑوں مردوں اور خواتین کو کوڑے مارنے کی سزائیں دی جاچکی ہیں جب کہ افغان طالبان کی حکومت میں اب تک چھ لوگوں کو سرِعام سزائے موت بھی دی جاچکی ہے۔ طالبان ان سزاؤں کو شریعت کے مطابق قرار دیتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی دیگر عالمی تنظیمیں کوڑے مارنے اور دیگر جسمانی سزاؤں کی مذمت کرتی آئی ہیں۔ ان کے نزدیک یہ سزائیں بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔

انسانی حقوق کے گروپ کا مطالبہ رہا ہے کہ طالبان ان سزاؤں پر عمل درآمد کا سلسلہ بند کریں۔

سال 2021 میں اقتدار میں آنے والے طالبان حکمران اپنے فوجداری نظامِ انصاف اور حکومتی اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ اسلامی قانون یا شریعت کی ان کی سخت گیر تشریحات کے عین مطابق ہے۔

افغانستان میں طالبان حکام نے لڑکیوں کی سیکنڈری اور یونی ورسٹی سطح کی تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے جب کہ بہت سے سرکاری اور نجی شعبوں میں خواتین کے کام کرنے پر ممانعت ہے۔ اسی طرح خواتین کے لیے عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپنے اور مرد سرپرست کے ساتھ سفر کرنے کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔

خواتین کے ساتھ سخت سلوک اور انسانی حقوق سے متعلق خدشات کے باعث ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

چین اور متحدہ عرب امارات نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے البتہ اس کے سفیر کو کام کی اجازت دے چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG