دنیا اکیسویں صدی میں سانس لے رہی ہے اور پاکستان اس سال اپنی آزادی کے65سال مکمل کرنے جارہا ہے لیکن حیران کن طور پر اور سخت ترین قوانین کی موجودگی کے باوجود ملک میں کئی فرسودہ رسومات آج بھی زندہ ہیں جبکہ ان کے عوض انگنت انسان متاثر یا اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔
ان رسومات کے حوالے سے یورپی یونین کے تحت کام کرنے والے ادارے ’انٹی گریٹیڈریجنل انفارمیشن نیٹ ورکس ‘ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان 21ویں صدی میں رہنے کے باوجود فرسودہ رسومات کا غلام ہے۔ اس رسومات میں سرفہرست” سوارا“ہے۔
”سوارا“ ۔۔۔صوبہ خیبر پختونخواہ ، جنوبی پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں رائج ہے۔ اس کے تحت کسی تضاد ، تصادم یا خاندانی تنازع کو ختم کرنے کے لئے لڑکیوں یا خواتین کومخالفین کے روبرو پیش کردیا جاتا ہے۔اسے ”ونی “ بھی کہاجاتا ہے۔
بدقسمتی سے جب جب کسی کو خون بہا دینا ہو، کسی کو بدکاری یا بدفعلی کے الزام سے رہائی دلانی ہو یا کسی اور جرم سے’ فرار ‘اختیار کرانا ، تب تب ”سوارا“ کی رسم زندہ ہوجاتی ہے۔ اخبارات میں رپورٹ ہونے والے واقعات پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہر سال ایسے سینکڑوں واقعات ہوتے ہیں لیکن اس رسم کو اب بھی جڑ سے نہیں اکھاڑا جاسکا۔
سن 2004ء میں ونی یا سوارا کے خلاف پارلیمنٹ نے باقاعدہ قانون سازی کی اور تعزات پاکستان اور پاکستان پینل کوڈ کے قوانین میں ترمیم کی گئیں جس کے تحت اسے قابل جرم قرار دیتے ہوئے پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 310اے کا اضافہ کیا گیا جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ خواتین کو” بدل صلح“ کی شکل میں پیش کرنا قانوناً جرم ہے جس کی سزا کم از کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ 10سال ہوگی۔
لیکن گرفتاریوں اور سخت قوانین کے خوف سے آج بھی متعدد خواتین یا لڑکیوں کو ”سوارا“کے تحت مخالفین کے حوالے کردیا جاتا ہے لیکن چونکہ اس طرح کی کوئی ’ڈیل‘ منظر عام پر نہیں لائی جاتی لہذا اس کے چرچے بھی عام نہیں ہوتے لیکن برادری والے اچھی طرح سے واقف ہوتے ہیں کہ کون سی لڑکی یا خاتون کو ”سوارا“ یا ”ونی “کے طور پر’ ’جبراًشادی کے پردے‘ میں پیش کیا گیا ہے۔
غلاموں جیسا سلوک
”سوارا“ کے روپ میں دی جانے والی دلہنوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہ اکثر و بیشتر ایسے مردوں کے حوالے کی جاتی ہیں جو دلہن کے مقابلے میں بہت بڑی عمر کے ہوتے ہیں۔ بسا اوقات تو دلہن کی عمر حوالے کئے جانے والے شخص کی بیٹی کی عمر سے بھی کہیں کم ہوتی ہے۔
مرے پہ سو درے کے مصداق سوارا یا ونی کے طور پر آنے والی خواتین، لڑکیوں یا دلہنوں سے ان کے سسرال والے غلاموں جیسا سلوک روا رکھتے ہیں۔
سن دوہزارچار میں ان جرائم کے خلاف بننے والے قوانین کو دسمبر 2011ء میں مزید سخت کیا گیاتھا۔ پارلیمنٹ نے قانون پاس کیا جس کی رو سے خواتین کی جبری شادی کرانے کے جرم کو ناقابل ضمانت قرار دیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ خواتین کی حالت بہتر بنائی جائے اور کوئی اس جرم کے بارے میں سوچے بھی نہیں یا کم ازکم ایسا کرتے ہوئے اسے قانون کا خوف ضرور ہو۔
عام مشاہدہ ہے کہ سوارا کی رسومات کو نہ ماننے والوں کو اکثر اپنی جانوں سے ہاتھ بھی دھونا پڑتے ہیں۔ گزشتہ سال صوبہ خیبرپختواہ کے علاقے اپردیر میں ایک باپ اور بھائی کو محض اس لئے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کہ انہوں نے اپنی چھوٹی بیٹی اور بہن کو بطور ونی کرنے اور سوارا کی رسوم کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔اس واقعے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں باقاعدہ مقدمہ چلا اور عدالت نے حکومت سے اس قسم کے کیس سے نمٹنے کے لئے خصوصی قوانین بنانے کا بھی مطالبہ کیا ۔
مینگورہ ، سوات کی ایک خاتون وکیل اور حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی ایک کارکن شوکت سلیم کا کہنا ہے کہ دیر، اپردیر اور اسی قسم کے بڑ ے علاقوں اور اضلاع میں سوارا کی رسومات اب بھی زندہ ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ ان رسومات کے خلاف اپنا رویہ بدلنے پر آمادہ نہیں ۔ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے لوگوں میں اب بھی بڑے پیمانے پر آگاہی کی ضرورت ہے ، خواتین کو مزید خودمختار بنانے کی ضرورت ہے۔ صوبے میں اب بھی لوگوں کی اکثریت ان قوانین سے ناآشنا ہے ۔ وہ اپنے ہاتھوں صدیوں سے ہونے والے اس جرم کو جرم نہیں ’خاندانی رسم‘سمجھتے ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل
غیرت کے نام پر قتل بھی ایک اورگھناونا جرم ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق گزشتہ سال یعنی 2011ء میں غیرت کے نام پر 943قتل ہوئے۔ غیرت کے نام پر قتل سے مراد ایسی خواتین کو خود ان کے گھروالے جان سے مار دیتے ہیں جو کسی طرح بھی ان کے خاندان کے لئے بدنامی کا باعث بنیں۔ اگر کسی خاتون پر بدکاری کا شبہ ہو تب بھی بسااوقات تحقیق کئے بغیر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اگر خواتین پسند کی شادی کرلیں تب بھی انہیں غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے۔
بیشتر پسند کی شادیوں کا انجام غیرت کے نام پر قتل کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ پچھلے ماہ جون میں پیش آچکا ہے۔ خیبر پختون خواہ کے ضلع کوہستان میں چارخواتین کوایک جرگے کی جانب سے محض اس لئے موت کی سزا سنادی گئی کہ وہ دو مردوں کو شادی کے موقع پر رقص کرتا ہوا دیکھ کر تالیاں بجارہی تھیں۔ کسی نے اس موقع پر ان کی ویڈیو بنالی اور جب یہ ویڈیو منظر عام پر آئی تو جرگے نے انہیں سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔
بچوں کی شادی
رسم و رواج بہت سے دوسرے طریقوں سے بھی خواتین کے استحصال کا باعث ہیں ۔ فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان کی جانب سے حال ہی میں کراچی میں ہونے والے ایک سیمینار میں بچوں کی شادیوں سے متعلق اعداد وشمار پیش کئے گئے ہیں جن کے مطابق پاکستان میں بچوں کی شادیوں کی شرح تیس فیصد سالانہ ہے۔ قانوناً شادی کے لئے لڑکی کی عمر 16سال جبکہ لڑکے کی عمر 18سال ہونی ضروری ہے لیکن بیشتر اوقات اسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ سول سوسائٹی کی تنظیمیں اس حوالے سے بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کررہی ہیں ، یہ اصلاحات کب ہوں گی اس بارے میں فوری طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے مگر امید کی جاسکتی ہے کہ جب بھی ایسا ہوگا، انسانیت پر نیا ’احسان ‘ہوگا۔
ان رسومات کے حوالے سے یورپی یونین کے تحت کام کرنے والے ادارے ’انٹی گریٹیڈریجنل انفارمیشن نیٹ ورکس ‘ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان 21ویں صدی میں رہنے کے باوجود فرسودہ رسومات کا غلام ہے۔ اس رسومات میں سرفہرست” سوارا“ہے۔
”سوارا“ ۔۔۔صوبہ خیبر پختونخواہ ، جنوبی پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں رائج ہے۔ اس کے تحت کسی تضاد ، تصادم یا خاندانی تنازع کو ختم کرنے کے لئے لڑکیوں یا خواتین کومخالفین کے روبرو پیش کردیا جاتا ہے۔اسے ”ونی “ بھی کہاجاتا ہے۔
بدقسمتی سے جب جب کسی کو خون بہا دینا ہو، کسی کو بدکاری یا بدفعلی کے الزام سے رہائی دلانی ہو یا کسی اور جرم سے’ فرار ‘اختیار کرانا ، تب تب ”سوارا“ کی رسم زندہ ہوجاتی ہے۔ اخبارات میں رپورٹ ہونے والے واقعات پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہر سال ایسے سینکڑوں واقعات ہوتے ہیں لیکن اس رسم کو اب بھی جڑ سے نہیں اکھاڑا جاسکا۔
سن 2004ء میں ونی یا سوارا کے خلاف پارلیمنٹ نے باقاعدہ قانون سازی کی اور تعزات پاکستان اور پاکستان پینل کوڈ کے قوانین میں ترمیم کی گئیں جس کے تحت اسے قابل جرم قرار دیتے ہوئے پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 310اے کا اضافہ کیا گیا جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ خواتین کو” بدل صلح“ کی شکل میں پیش کرنا قانوناً جرم ہے جس کی سزا کم از کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ 10سال ہوگی۔
لیکن گرفتاریوں اور سخت قوانین کے خوف سے آج بھی متعدد خواتین یا لڑکیوں کو ”سوارا“کے تحت مخالفین کے حوالے کردیا جاتا ہے لیکن چونکہ اس طرح کی کوئی ’ڈیل‘ منظر عام پر نہیں لائی جاتی لہذا اس کے چرچے بھی عام نہیں ہوتے لیکن برادری والے اچھی طرح سے واقف ہوتے ہیں کہ کون سی لڑکی یا خاتون کو ”سوارا“ یا ”ونی “کے طور پر’ ’جبراًشادی کے پردے‘ میں پیش کیا گیا ہے۔
غلاموں جیسا سلوک
”سوارا“ کے روپ میں دی جانے والی دلہنوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہ اکثر و بیشتر ایسے مردوں کے حوالے کی جاتی ہیں جو دلہن کے مقابلے میں بہت بڑی عمر کے ہوتے ہیں۔ بسا اوقات تو دلہن کی عمر حوالے کئے جانے والے شخص کی بیٹی کی عمر سے بھی کہیں کم ہوتی ہے۔
مرے پہ سو درے کے مصداق سوارا یا ونی کے طور پر آنے والی خواتین، لڑکیوں یا دلہنوں سے ان کے سسرال والے غلاموں جیسا سلوک روا رکھتے ہیں۔
سن دوہزارچار میں ان جرائم کے خلاف بننے والے قوانین کو دسمبر 2011ء میں مزید سخت کیا گیاتھا۔ پارلیمنٹ نے قانون پاس کیا جس کی رو سے خواتین کی جبری شادی کرانے کے جرم کو ناقابل ضمانت قرار دیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ خواتین کی حالت بہتر بنائی جائے اور کوئی اس جرم کے بارے میں سوچے بھی نہیں یا کم ازکم ایسا کرتے ہوئے اسے قانون کا خوف ضرور ہو۔
عام مشاہدہ ہے کہ سوارا کی رسومات کو نہ ماننے والوں کو اکثر اپنی جانوں سے ہاتھ بھی دھونا پڑتے ہیں۔ گزشتہ سال صوبہ خیبرپختواہ کے علاقے اپردیر میں ایک باپ اور بھائی کو محض اس لئے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کہ انہوں نے اپنی چھوٹی بیٹی اور بہن کو بطور ونی کرنے اور سوارا کی رسوم کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔اس واقعے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں باقاعدہ مقدمہ چلا اور عدالت نے حکومت سے اس قسم کے کیس سے نمٹنے کے لئے خصوصی قوانین بنانے کا بھی مطالبہ کیا ۔
مینگورہ ، سوات کی ایک خاتون وکیل اور حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی ایک کارکن شوکت سلیم کا کہنا ہے کہ دیر، اپردیر اور اسی قسم کے بڑ ے علاقوں اور اضلاع میں سوارا کی رسومات اب بھی زندہ ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ ان رسومات کے خلاف اپنا رویہ بدلنے پر آمادہ نہیں ۔ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے لوگوں میں اب بھی بڑے پیمانے پر آگاہی کی ضرورت ہے ، خواتین کو مزید خودمختار بنانے کی ضرورت ہے۔ صوبے میں اب بھی لوگوں کی اکثریت ان قوانین سے ناآشنا ہے ۔ وہ اپنے ہاتھوں صدیوں سے ہونے والے اس جرم کو جرم نہیں ’خاندانی رسم‘سمجھتے ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل
غیرت کے نام پر قتل بھی ایک اورگھناونا جرم ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق گزشتہ سال یعنی 2011ء میں غیرت کے نام پر 943قتل ہوئے۔ غیرت کے نام پر قتل سے مراد ایسی خواتین کو خود ان کے گھروالے جان سے مار دیتے ہیں جو کسی طرح بھی ان کے خاندان کے لئے بدنامی کا باعث بنیں۔ اگر کسی خاتون پر بدکاری کا شبہ ہو تب بھی بسااوقات تحقیق کئے بغیر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اگر خواتین پسند کی شادی کرلیں تب بھی انہیں غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے۔
بیشتر پسند کی شادیوں کا انجام غیرت کے نام پر قتل کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ پچھلے ماہ جون میں پیش آچکا ہے۔ خیبر پختون خواہ کے ضلع کوہستان میں چارخواتین کوایک جرگے کی جانب سے محض اس لئے موت کی سزا سنادی گئی کہ وہ دو مردوں کو شادی کے موقع پر رقص کرتا ہوا دیکھ کر تالیاں بجارہی تھیں۔ کسی نے اس موقع پر ان کی ویڈیو بنالی اور جب یہ ویڈیو منظر عام پر آئی تو جرگے نے انہیں سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔
بچوں کی شادی
رسم و رواج بہت سے دوسرے طریقوں سے بھی خواتین کے استحصال کا باعث ہیں ۔ فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان کی جانب سے حال ہی میں کراچی میں ہونے والے ایک سیمینار میں بچوں کی شادیوں سے متعلق اعداد وشمار پیش کئے گئے ہیں جن کے مطابق پاکستان میں بچوں کی شادیوں کی شرح تیس فیصد سالانہ ہے۔ قانوناً شادی کے لئے لڑکی کی عمر 16سال جبکہ لڑکے کی عمر 18سال ہونی ضروری ہے لیکن بیشتر اوقات اسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ سول سوسائٹی کی تنظیمیں اس حوالے سے بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کررہی ہیں ، یہ اصلاحات کب ہوں گی اس بارے میں فوری طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے مگر امید کی جاسکتی ہے کہ جب بھی ایسا ہوگا، انسانیت پر نیا ’احسان ‘ہوگا۔