کراچی میں حضرت علی کے مرکزی جلوس کے قریب ہوائی فائرنگ سے بھگدڑ مچ گئی ۔کمشنر کراچی کے مطابق ایک گروپ کی جانب سے جلوس میں داخل ہونے کی کوشش کی گئی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کی تلاشی لینے کی کوشش کی تو انہوں نے جلو س پر فائرنگ کر دی ۔
کراچی میں یوم شہادت علی کا مرکزی جلوس نشتر پارک سے برآمد ہوا اور اپنے روایتی راستوں پر چلتے ہوئے امام بارگاہ حسینیہ ایرانیاں کی جانب رواں دواں تھاکہ ڈینسوہال کے قریب جلوس کے آخری حصے کے قریب ہوائی فائرنگ سے بھگدڑ مچ گئی اور شرکائے جلوس اور علاقے میں خوف وہراس پھیل گیا۔
کمشنر کراچی کے مطابق تقریباً آٹھ سو افراد نے لائٹ ہاؤس کے قریب مرکزی جلوس میں داخل ہونے کی کوشش کی ، انتظامیہ نے ان افراد کی تلاشی لینے پر زور دیا تو انہوں نے فائرنگ کر دی جس کے بعد پولیس اور رینجرز اہلکاروں کو بھی ہوائی فائرنگ کرنی پڑی ۔ فائرنگ سے جلوس کے ایک حصے میں بھگدڑ مچ گئی جس پر تھوڑی دیر میں قابو پا لیا گیا تھا ۔
خادم جلوس شبر زیدی نے میڈیا کو بتایا کہ جلوس پر فائرنگ برابر والے روڈ سے ہوئی ، فائرنگ نہ جلوس میں شریک افراد نے کی اور نہ ہی رینجرز نے ۔
فائرنگ کے بعد مشتعل افراد نے پولیس اور رینجرز کے خلاف شدید احتجاج بھی کیا ، پولیس اور رینجرز پرپتھراؤ کیا گیا جس سے ایس ایس پی آصف اعجاز زخمی ہو گئے ۔ اس کے علاوہ پولیس اور رینجرز کی گاڑیوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے ۔ اس واقعہ سے کچھ دیر تک جلوس رکا رہا تاہم اس کے بعد جلوس پرامن طور پر امام بارگاہ حسینیاں ایرانیاں پہنچ کر اختتام پذیر ہوگیا ۔
حضرت علی کا یوم شہادت ہر رمضان کی 21ویں تاریخ کو عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے ۔ اس دن پاکستان کے چھوٹے بڑے تمام شہروں میں جلوس نکالے جاتے ہیں اور مجالس منعقد ہوتی ہیں۔ان جلوسوں کی سیکورٹی کے لئے سخت انتظامات کئے جاتے ہیں ۔ کراچی میں جلوس نشترپارک سے برآمد ہوتا اور حسینیہ ایرانیاں امام بارگاہ کھارادر میں جاکر ختم ہوتا ہے۔
پولیس کے مطابق ہر سا ل کی طرح اس سال بھی دہشت گردی اور کسی بھی قسم کے ناخوش گوار واقعے سے بچنے کے لئے مجالس عزاء اور جلوسوں کی حفاظت کیلئے فول پروف انتظامات کئے گئے تھے۔مساجد اور امام بارگاہوں کے باہر پولیس اہلکار تعینات تھے جبکہ شہروں کے داخلی وخارجی راستوں پر پولیس گشت بڑھا دیا گیا تھا۔
جلوسوں کے روٹس کو مکمل طور پرچیک کیاگیا تھا۔ مرکزی جلوسوں کے 2کلومیٹر تک کا علاقہ مکمل سیل کیاگیا تھا۔ حساس شہروں میں دفعہ 144کے تحت ڈبل سواری پر پابندی بھی لگائی گئی تھی جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی پوری طرح چوکس رہنے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔
کراچی میں یوم شہادت علی کا مرکزی جلوس نشتر پارک سے برآمد ہوا اور اپنے روایتی راستوں پر چلتے ہوئے امام بارگاہ حسینیہ ایرانیاں کی جانب رواں دواں تھاکہ ڈینسوہال کے قریب جلوس کے آخری حصے کے قریب ہوائی فائرنگ سے بھگدڑ مچ گئی اور شرکائے جلوس اور علاقے میں خوف وہراس پھیل گیا۔
کمشنر کراچی کے مطابق تقریباً آٹھ سو افراد نے لائٹ ہاؤس کے قریب مرکزی جلوس میں داخل ہونے کی کوشش کی ، انتظامیہ نے ان افراد کی تلاشی لینے پر زور دیا تو انہوں نے فائرنگ کر دی جس کے بعد پولیس اور رینجرز اہلکاروں کو بھی ہوائی فائرنگ کرنی پڑی ۔ فائرنگ سے جلوس کے ایک حصے میں بھگدڑ مچ گئی جس پر تھوڑی دیر میں قابو پا لیا گیا تھا ۔
خادم جلوس شبر زیدی نے میڈیا کو بتایا کہ جلوس پر فائرنگ برابر والے روڈ سے ہوئی ، فائرنگ نہ جلوس میں شریک افراد نے کی اور نہ ہی رینجرز نے ۔
فائرنگ کے بعد مشتعل افراد نے پولیس اور رینجرز کے خلاف شدید احتجاج بھی کیا ، پولیس اور رینجرز پرپتھراؤ کیا گیا جس سے ایس ایس پی آصف اعجاز زخمی ہو گئے ۔ اس کے علاوہ پولیس اور رینجرز کی گاڑیوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے ۔ اس واقعہ سے کچھ دیر تک جلوس رکا رہا تاہم اس کے بعد جلوس پرامن طور پر امام بارگاہ حسینیاں ایرانیاں پہنچ کر اختتام پذیر ہوگیا ۔
حضرت علی کا یوم شہادت ہر رمضان کی 21ویں تاریخ کو عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے ۔ اس دن پاکستان کے چھوٹے بڑے تمام شہروں میں جلوس نکالے جاتے ہیں اور مجالس منعقد ہوتی ہیں۔ان جلوسوں کی سیکورٹی کے لئے سخت انتظامات کئے جاتے ہیں ۔ کراچی میں جلوس نشترپارک سے برآمد ہوتا اور حسینیہ ایرانیاں امام بارگاہ کھارادر میں جاکر ختم ہوتا ہے۔
پولیس کے مطابق ہر سا ل کی طرح اس سال بھی دہشت گردی اور کسی بھی قسم کے ناخوش گوار واقعے سے بچنے کے لئے مجالس عزاء اور جلوسوں کی حفاظت کیلئے فول پروف انتظامات کئے گئے تھے۔مساجد اور امام بارگاہوں کے باہر پولیس اہلکار تعینات تھے جبکہ شہروں کے داخلی وخارجی راستوں پر پولیس گشت بڑھا دیا گیا تھا۔
جلوسوں کے روٹس کو مکمل طور پرچیک کیاگیا تھا۔ مرکزی جلوسوں کے 2کلومیٹر تک کا علاقہ مکمل سیل کیاگیا تھا۔ حساس شہروں میں دفعہ 144کے تحت ڈبل سواری پر پابندی بھی لگائی گئی تھی جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی پوری طرح چوکس رہنے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔