واشنگٹن —
’امریکہ اور دنیائے اسلام‘ کے عنوان سے ایک ادرایے میں ’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ کہتا ہے کہ جس اسلام دشمن وڈیو کی وجہ سے اسلامی دنیا میں امریکی سفارت خانوں پرحملوں اور پُر تشدّد احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوا وہ عوامی غیظ وغضب کا بڑا آسان سبب ہے ۔ لیکن، اِن معاشروں میں اِس سے بھی کہیں زیادہ گہرے عوامل کارفرما ہیں جو پہلے ہی سے بے روزگاری ، اقتصادی جمُود اور سابقہ عرب حکومتوں کے عشروں پر محیط ظلم وجبر کی وجہ سے بھرے بیٹھے تھے۔
حریت کی نئی تحریک کے بعدنو آزاد عرب ملک اب اسلامی انتہا پسندوں، اعتدال پسندوں اور سیکیولر تنظیموں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں، جو سب اپنی طاقت اور رسوخ اِس جمہوری دور کی سمت طےکرنے کے لئے برُوئے کار لانا چاہتے ہیں۔
اور، ٹربیون کا خیال ہے کہ قطع نظر اِس کے کہ بعض حلقو ں کی اس بارے کوئی بھی رائے ہو، یہ طاقتیں اور یہ حملے شائد امریکی خارجہ پالیسی کے بس کی بات نہیں ہیں۔
اسلامی انتہا پسند لیڈر اور اور القاعدہ کے حامی ٹولے اس بدامنی کو اپنا الُّو سیدھا کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ بیروت میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے امریکہ کے خلاف ایک بڑا احتجاجی جلوس نکالا ۔ یہ بلا شبہ اپنی اس مقبولیت کو بحال کرنےکی کوشش تھی جسے شامی ڈکٹیٹربشا رلاسد کا ساتھ دینے کی وجہ سے سخت دھچکہ پہنچا ہے۔
امریکہ دُشمن انتہا پسندوں نےلبیا میں امریکی سفیر کرس ٕسٹیونز اور ان کے تین رفقائے کار کو بن غازی میں قتل کیا اور پھر دوسرے لبیائی شہروں میں مزید قتل و غار ت کا بازار گرم کیا، اور اِس طرح، اُن لوگوں کے دلوں میں بد ترین وسوسے پیدا کئے ، جو مسلمانوں کو عدم رواداری اور منافرت کا پیکر سمجھتے ہیں۔ اِن انتہا پسندوں نے اِن ملکوں کی معیشتوں ، سیاحت اور دوسرے دھندوں کو ، جِن کا افرا تفری اور بدامنی میں پنپنا محال ہے، سنگین نقصان پہنچایا ہے۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
ٹربیو ن کہتا ہے کہ بجائے اس کے کہ اپنی حکومتوں سے روزگار یا سر چھپانے کے لئے جگہ کا مطالبہ کریں، اِن انتہا پسندوں کا سارا زور اس بھدّے وڈیو پر تھا جسے امریکہ میں چند قابل نفرت انتہا پسندوں نے چلا رکھا ہے۔
ٹربیون صدر اوبامہ کی اسلامی دنیا کے ساتھ صلح و آشتی بڑھانے کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہتا ہے کہ سنہ 2009میں قاہرہ میں اپنی تقریر میں اُنھوں نے باہمی احترام کا عہد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُنھیں انتہا پسندی کےخلاف ڈٹ جانے میں ذرہ بھر تامل نہیں ہوگا، لیکن وہ اسلام کے خلاف کبھی جنگ مول نہیں لیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے دنیائے اسلام کو یہ بھی کہا تھا کہ اُنھیں ایسی پُرامن حکومتیں منتخب کرنی چاہئیں جو اپنے تمام شہریوں کا احترام کرتی ہوں۔ اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی ہوگی کہ اتنے سارے عرب ملک اس معیار پر پورا اترنے کی جدوجہد میں مصروف ہوں گے اور اگرچہ یہ تکلیف دہ بات ہے لیکن یہ حق ہے کہ احتجاجی مظاہروں میں چند ہزار یا اس سے کم لوگوں نے شرکت کی ہے، بہت سے لیڈروں نے تشدد کی مذمت کی ہے اور امریکی سفارت خانوں اور دفاتر کے لیے حفاظتی انتظامات کر دئے ہیں۔
اِسی ضمن میں ’لاس انجیلس ٹائمز‘ کی رپورٹ ہے کہ اِس قابل نفرت وڈیو کے خلاف پاکستان انڈونیشیا اور دوسرے ملکوں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، جب کہ مزید ملکوں کی یہ کوشش ہے کہ یہ وڈیو اب انٹرنیٹ پر نظر نہ آئے۔
اخبار کہتا ہے کہ گوگل نے مصر اور لبیا میں اِس کو پہلے ہی بند کردیا ہے اور ہندوستان اور انڈونیشیا میں اِس کو محدود کردیا ہے، کیونکہ یہ مقامی قانون کے خلاف جاتا ہے۔
البتہ، اِس کمپنی نے اِس وڈیو کو مکمل طور پر ہٹانے سے انکار کردیا ہے تاکہ یہ کہیں اور نہ دیکھا جاسکے، کیونکہ یہ اُس کے رہنما اصولوں کے دائرہٴ کار کے اندر ہے۔ چناچہ، یہ وڈیو ابھی بھی آن لائن دستیاب ہے جس پر وہ ملک برہم ہیں جہاں اِس وڈیو کو بلاک کیا گیا۔
جِن ملکوں میں یہ وڈیو یوٹیوب پر ابھی بند نہیں ہوا وہاں بعض حکومتیں یو ٹیوب کو مکمل طور سے بند کر رہی ہیں۔
پاکستانی وزیر اعظم نے اُس وقت تک اِس ویب سائٹ کو مکمل طور پر بند کرنے کی ہدائت کردی ہے جب تک اِس قابلِ اعتراض وڈیو کو نہیں ہٹایا جاتا۔
بنگلہ دیش بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔ یو ٹیوب کےایک نمائندے نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں میں یہ ویب سائٹ استعمال کرنے والوں نے شکائت کی ہے کہ اب اُنھیں اُس تک رسائی حاصل نہیں رہی۔
روس کے محکمہٴ مواصلات کے سربراہ نےخبردار کیا ہے کہ اُن کا ملک بھی ایسا ہی اقدام اُٹھا سکتا ہے۔
حریت کی نئی تحریک کے بعدنو آزاد عرب ملک اب اسلامی انتہا پسندوں، اعتدال پسندوں اور سیکیولر تنظیموں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں، جو سب اپنی طاقت اور رسوخ اِس جمہوری دور کی سمت طےکرنے کے لئے برُوئے کار لانا چاہتے ہیں۔
اور، ٹربیون کا خیال ہے کہ قطع نظر اِس کے کہ بعض حلقو ں کی اس بارے کوئی بھی رائے ہو، یہ طاقتیں اور یہ حملے شائد امریکی خارجہ پالیسی کے بس کی بات نہیں ہیں۔
اسلامی انتہا پسند لیڈر اور اور القاعدہ کے حامی ٹولے اس بدامنی کو اپنا الُّو سیدھا کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ بیروت میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے امریکہ کے خلاف ایک بڑا احتجاجی جلوس نکالا ۔ یہ بلا شبہ اپنی اس مقبولیت کو بحال کرنےکی کوشش تھی جسے شامی ڈکٹیٹربشا رلاسد کا ساتھ دینے کی وجہ سے سخت دھچکہ پہنچا ہے۔
امریکہ دُشمن انتہا پسندوں نےلبیا میں امریکی سفیر کرس ٕسٹیونز اور ان کے تین رفقائے کار کو بن غازی میں قتل کیا اور پھر دوسرے لبیائی شہروں میں مزید قتل و غار ت کا بازار گرم کیا، اور اِس طرح، اُن لوگوں کے دلوں میں بد ترین وسوسے پیدا کئے ، جو مسلمانوں کو عدم رواداری اور منافرت کا پیکر سمجھتے ہیں۔ اِن انتہا پسندوں نے اِن ملکوں کی معیشتوں ، سیاحت اور دوسرے دھندوں کو ، جِن کا افرا تفری اور بدامنی میں پنپنا محال ہے، سنگین نقصان پہنچایا ہے۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
ٹربیو ن کہتا ہے کہ بجائے اس کے کہ اپنی حکومتوں سے روزگار یا سر چھپانے کے لئے جگہ کا مطالبہ کریں، اِن انتہا پسندوں کا سارا زور اس بھدّے وڈیو پر تھا جسے امریکہ میں چند قابل نفرت انتہا پسندوں نے چلا رکھا ہے۔
ٹربیون صدر اوبامہ کی اسلامی دنیا کے ساتھ صلح و آشتی بڑھانے کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہتا ہے کہ سنہ 2009میں قاہرہ میں اپنی تقریر میں اُنھوں نے باہمی احترام کا عہد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُنھیں انتہا پسندی کےخلاف ڈٹ جانے میں ذرہ بھر تامل نہیں ہوگا، لیکن وہ اسلام کے خلاف کبھی جنگ مول نہیں لیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے دنیائے اسلام کو یہ بھی کہا تھا کہ اُنھیں ایسی پُرامن حکومتیں منتخب کرنی چاہئیں جو اپنے تمام شہریوں کا احترام کرتی ہوں۔ اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی ہوگی کہ اتنے سارے عرب ملک اس معیار پر پورا اترنے کی جدوجہد میں مصروف ہوں گے اور اگرچہ یہ تکلیف دہ بات ہے لیکن یہ حق ہے کہ احتجاجی مظاہروں میں چند ہزار یا اس سے کم لوگوں نے شرکت کی ہے، بہت سے لیڈروں نے تشدد کی مذمت کی ہے اور امریکی سفارت خانوں اور دفاتر کے لیے حفاظتی انتظامات کر دئے ہیں۔
اِسی ضمن میں ’لاس انجیلس ٹائمز‘ کی رپورٹ ہے کہ اِس قابل نفرت وڈیو کے خلاف پاکستان انڈونیشیا اور دوسرے ملکوں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، جب کہ مزید ملکوں کی یہ کوشش ہے کہ یہ وڈیو اب انٹرنیٹ پر نظر نہ آئے۔
اخبار کہتا ہے کہ گوگل نے مصر اور لبیا میں اِس کو پہلے ہی بند کردیا ہے اور ہندوستان اور انڈونیشیا میں اِس کو محدود کردیا ہے، کیونکہ یہ مقامی قانون کے خلاف جاتا ہے۔
البتہ، اِس کمپنی نے اِس وڈیو کو مکمل طور پر ہٹانے سے انکار کردیا ہے تاکہ یہ کہیں اور نہ دیکھا جاسکے، کیونکہ یہ اُس کے رہنما اصولوں کے دائرہٴ کار کے اندر ہے۔ چناچہ، یہ وڈیو ابھی بھی آن لائن دستیاب ہے جس پر وہ ملک برہم ہیں جہاں اِس وڈیو کو بلاک کیا گیا۔
جِن ملکوں میں یہ وڈیو یوٹیوب پر ابھی بند نہیں ہوا وہاں بعض حکومتیں یو ٹیوب کو مکمل طور سے بند کر رہی ہیں۔
پاکستانی وزیر اعظم نے اُس وقت تک اِس ویب سائٹ کو مکمل طور پر بند کرنے کی ہدائت کردی ہے جب تک اِس قابلِ اعتراض وڈیو کو نہیں ہٹایا جاتا۔
بنگلہ دیش بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔ یو ٹیوب کےایک نمائندے نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں میں یہ ویب سائٹ استعمال کرنے والوں نے شکائت کی ہے کہ اب اُنھیں اُس تک رسائی حاصل نہیں رہی۔
روس کے محکمہٴ مواصلات کے سربراہ نےخبردار کیا ہے کہ اُن کا ملک بھی ایسا ہی اقدام اُٹھا سکتا ہے۔