صفدر علی پچاس، باون کے پیٹے میں ہوگا۔ قدآور، چوڑا سینہ۔اکثر ٹی شرٹ اور پینٹ میں ملبوس۔ پاوٴں میں ریگزین اور ربڑ سے بنی گہرے کلیجی رنگ کی انگھوٹھے دار چپل۔ منہ میں پان اور دانتوں میں برسوں سے لپٹا کتھا اُس کی مخصوص پہچان ہیں۔ وہ کراچی کے نشیمن سنیما والی لائن میں واقع ایک پرانی فلم ڈسٹری بیوشن کمپنی کا دیرینہ ملازم ہے۔
آوٴٹ ڈور کام اور خاص کر اخبارات کو اشاعت کی غرض سے برسوں سے فلمی اشتہارات پہچانا اس کے ’فرائض منصبی‘ میں شامل ہے۔ اورنگی ٹاوٴن کا رہائشی مگر پیدائشی بنگلا دیشی ہے۔ ہنس مکھ اور خوش اخلاق۔لیکن، گزشتہ جمعہ سے اس کی ہرحال میں مگن اور خوش رہنے کی ادا جانے کہاں چلی گئی ہے۔ ان تین دنوں میں ہر کسی نے اسے اداس اور اکھڑا اکھڑا دیکھا ہے۔
صفدر کو کراچی میں تین روز پہلے ہونے والے پُرتشدد مظاہروں میں نذر آتش ہوجانے والےسنیماگھروں کا بہت غم ہے۔ وائس آف امریکہ سے اپنے دل کا احوال بیان کرتے ہوئے اس کا کہنا ہے ”ساب(صاحب)، چھ ،سات سنیما ہال جل گئے ، یہاں تو پہلے ہی سنیماہالز کم تھے۔ اب فلمیں کہاں چلیں گئیں ؟ میرا سیٹھ پہلے ہی ہر بار تنخواہ دیتے وقت یہ کہتا تھا کہ فلمیں چلنا خواب ہوگیا ، آمدنی ہے نہیں ، خرچہ نکالنا بھی اب تو مشکل ہورہا ہے سوچ رہا ہوں دفتر کو ہی تالا ڈال دوں۔ساب میں یہ سوچ کر اداس ہوں کہ اب میرا کیا ہوگا؟“
صفدر کی روٹی روزی فلموں کی نمائش سے جڑی ہے، اس کی اداسی واجب ہے۔ اکیلا صفدر ہی کیوں بہت سے دوسرے بھی اس اقدام پر ناخوش ہیں۔ جمعہ کے جلاوٴ گھیراوٴ میں جہاں لاکھوں کی املاک جل کر خاک ہوگئی وہیں کراچی، پشاور اور کوئٹہ کے کئی تاریخی نوعیت کے سنیما ہالز بھی جلادیئے گئے۔ واقعے کو آج کئی شامیں گزرگئیں لیکن شہر کی تاریخی شاہراہ ایم اے جناح روڈ اور اس سے متصل ذیلی سڑک پر واقع 4 یادگار سنیماہالز ۔۔۔” نشاط“،” کیپری“،” پرنس“ ،” بمبینو “اور ایم اے جناح روڈ سے ٹچ کرتے نیپئر روڈ کا ”گلستان “ اور لانڈھی کا” نگار“ سنیما ۔۔۔اب بھی اپنے جلائے جانے کا قصور پوچھ رہے ہیں۔
کراچی کے مشہور ترین ایسٹرن فلم اسٹوڈیو کے ساتھ 1973ء سے کئی عشروں تک ساوٴنڈ ریکارڈسٹ کی حیثیت سے وابستہ رہنے والے ایس ایم انور حمید بھی اُنہی لوگوں میں شامل ہیں جنہیں یقین ہے کہ ان سنیماہالزکا جلایا جانا بے مقصد ہے۔ وہ کہتے ہیں۔
”نہ گستاخانہ فلم یہاں چلنا تھی، نہ ان لوگوں سے جنہوں نے فلم بنائی ، اِن سنیماہالوں کا کچھ لینا دینا تھا ۔پھر بھی، بے قصور ہی ان سے وابستہ درجنوں افراد کوبے روزگار کردیا گیا ۔میں نے ان سنیماہالز کو ”جوبن“ پر دیکھا ہے ”نشاط“ سینما کا افتتاح تو پاکستان کے ابتدائی سالوں میں محترمہ فاطمہ جناح نے خود کیا تھا۔اسی سنیما کے سامنے ایک اور سنیما ”ناز “ بھی ہوا کرتا تھا ، وہ بھی انہی کے ہاتھوں شروع ہوا تھا۔ “
انور حمید اپنی سنہری یادوں کو کریدتے ہوئے مزید کہتے ہیں ”نشاط “ اور ”ناز “ سنیما اپنے آپ میں ایک تاریخ تھے۔ بے شمار فلمیں ان پر چلیں جنہوں نے گولڈن جوبلی اور سلور جوبلی منائی۔ شہر کے وسط میں ہونے کی وجہ سے ہر شخص کی ان تک دسترس تھی ، نشاط اور پرنس سینما پر جب بھی کوئی پاکستانی فلم کامیابی کا ریکارڈ بناتی بڑے بڑے فنکار خود چل کر یہاں آتے۔ ان فنکاروں میں شہنشاہ جذبات کا لقب رکھنے والے اداکار محمد علی،چاکلیٹی ہیرو وحیدمراد، اداکار ندیم ، سدھیر، سنتوش ، شبنم، مہدی حسن اور میڈیم نورجہاں ۔۔۔سمیت کون سا گلوکار و فنکار تھا جو اس زمانے میں ان سنیما گھروں میں نہ آتا ہوگا۔ “
انور حمید کف افسوس ملتے ہوئے کہتے ہیں۔”آج میں ان جلے ہوئے سنیماہالز کو دیکھنے گیا تو گویا آنکھیں نم ہوگئیں۔ ان سنیماہالز پرماضی میں بھی میرا بہت آناجانا رہا ہے۔ میرے یار ددست احباب ، ان کے ساتھ یہاں گزرے ہوئے شب و روز اور وہ محفلیں ۔۔۔سب کی یادیں مجھے برسوں پیچھے لے گئیں۔ میں نے جلے ہوئے سنیماہالز کا بہت گہرائی سے مشاہدہ کیا۔ اس کی ہر ہر چیز مجھے میرے ماضی سے جوڑ گئی۔‘‘
”بمبینو سینما کا وہ فرنٹ جہاں لوگ بلیک میں ٹکٹیں خریدنے کے لئے چوری چوری ایک دوسرے سے نظروں ہی نظروں میں پوچھا کرتے تھے ، وہ آج مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔ گراوٴنڈ فلور، ہال کا اندرونی حصہ جہاں فلم بینوں کے لئے نشستیں لگیں تھیں، سب جل جل گئیں۔“
” پرنس سینما تو گویا پورا کا پورا راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ ٹکٹ ونڈوز،پروجیکٹر روم۔کچھ بھی نہیں بچا۔ یہی ہال دوسرے سنیما کا بھی ہے۔یہاں کے وہ اے سیز بھی جل گئے جو دن بھر کی گرمی کے بعد ٹھنڈک بھرے ماحول میں اپنی پسند کی فلم دیکھنے کا دل فریب بہانا ہوا کرتے تھے۔ سنیماہالز کی چھتیں بھی کئی جگہ سے گر گئی ہیں“
انہوں نے مزید کہا” مجھے کسی عینی شاہد نے بتایا ہے کہ ”ظالم لوگ“ اپنے ساتھ ایسا کیمیکل لائے تھے جو دیکھتے ہی دیکھتے آگ پکڑ لیتا ہے ۔ایسی آگ جس پر آسانی سے قابو نہیں پایاجاسکتا۔ اس بات کا کوئی ثبوت تو نہیں لیکن اس بیان میں کتنے فیصد سچائی ہے اس کا کچھ کچھ اندازہ جلے ہوئے سنیماہالزکو دیکھ کر ہوتا ہے۔سچ پوچھئے تو یہ سینما ہالز ہی نہیں جلے، اس دور میں بھی سب سے سستی تفریح کا ’نایاب ذریعہ“ جل گیا، کئی خاندانوں کا معاشی قتل ہوگیا، کئی لوگ بے روزگار ہوگئے اور سب سے بڑھ کر ۔وہ پاکستانی فلم انڈسٹری جس میں زندگی کی تھوڑی سی رمق باقی تھی وہ بھی آج گمنام موت کا شکار ہوگئی۔“
آوٴٹ ڈور کام اور خاص کر اخبارات کو اشاعت کی غرض سے برسوں سے فلمی اشتہارات پہچانا اس کے ’فرائض منصبی‘ میں شامل ہے۔ اورنگی ٹاوٴن کا رہائشی مگر پیدائشی بنگلا دیشی ہے۔ ہنس مکھ اور خوش اخلاق۔لیکن، گزشتہ جمعہ سے اس کی ہرحال میں مگن اور خوش رہنے کی ادا جانے کہاں چلی گئی ہے۔ ان تین دنوں میں ہر کسی نے اسے اداس اور اکھڑا اکھڑا دیکھا ہے۔
صفدر کو کراچی میں تین روز پہلے ہونے والے پُرتشدد مظاہروں میں نذر آتش ہوجانے والےسنیماگھروں کا بہت غم ہے۔ وائس آف امریکہ سے اپنے دل کا احوال بیان کرتے ہوئے اس کا کہنا ہے ”ساب(صاحب)، چھ ،سات سنیما ہال جل گئے ، یہاں تو پہلے ہی سنیماہالز کم تھے۔ اب فلمیں کہاں چلیں گئیں ؟ میرا سیٹھ پہلے ہی ہر بار تنخواہ دیتے وقت یہ کہتا تھا کہ فلمیں چلنا خواب ہوگیا ، آمدنی ہے نہیں ، خرچہ نکالنا بھی اب تو مشکل ہورہا ہے سوچ رہا ہوں دفتر کو ہی تالا ڈال دوں۔ساب میں یہ سوچ کر اداس ہوں کہ اب میرا کیا ہوگا؟“
صفدر کی روٹی روزی فلموں کی نمائش سے جڑی ہے، اس کی اداسی واجب ہے۔ اکیلا صفدر ہی کیوں بہت سے دوسرے بھی اس اقدام پر ناخوش ہیں۔ جمعہ کے جلاوٴ گھیراوٴ میں جہاں لاکھوں کی املاک جل کر خاک ہوگئی وہیں کراچی، پشاور اور کوئٹہ کے کئی تاریخی نوعیت کے سنیما ہالز بھی جلادیئے گئے۔ واقعے کو آج کئی شامیں گزرگئیں لیکن شہر کی تاریخی شاہراہ ایم اے جناح روڈ اور اس سے متصل ذیلی سڑک پر واقع 4 یادگار سنیماہالز ۔۔۔” نشاط“،” کیپری“،” پرنس“ ،” بمبینو “اور ایم اے جناح روڈ سے ٹچ کرتے نیپئر روڈ کا ”گلستان “ اور لانڈھی کا” نگار“ سنیما ۔۔۔اب بھی اپنے جلائے جانے کا قصور پوچھ رہے ہیں۔
کراچی کے مشہور ترین ایسٹرن فلم اسٹوڈیو کے ساتھ 1973ء سے کئی عشروں تک ساوٴنڈ ریکارڈسٹ کی حیثیت سے وابستہ رہنے والے ایس ایم انور حمید بھی اُنہی لوگوں میں شامل ہیں جنہیں یقین ہے کہ ان سنیماہالزکا جلایا جانا بے مقصد ہے۔ وہ کہتے ہیں۔
”نہ گستاخانہ فلم یہاں چلنا تھی، نہ ان لوگوں سے جنہوں نے فلم بنائی ، اِن سنیماہالوں کا کچھ لینا دینا تھا ۔پھر بھی، بے قصور ہی ان سے وابستہ درجنوں افراد کوبے روزگار کردیا گیا ۔میں نے ان سنیماہالز کو ”جوبن“ پر دیکھا ہے ”نشاط“ سینما کا افتتاح تو پاکستان کے ابتدائی سالوں میں محترمہ فاطمہ جناح نے خود کیا تھا۔اسی سنیما کے سامنے ایک اور سنیما ”ناز “ بھی ہوا کرتا تھا ، وہ بھی انہی کے ہاتھوں شروع ہوا تھا۔ “
انور حمید اپنی سنہری یادوں کو کریدتے ہوئے مزید کہتے ہیں ”نشاط “ اور ”ناز “ سنیما اپنے آپ میں ایک تاریخ تھے۔ بے شمار فلمیں ان پر چلیں جنہوں نے گولڈن جوبلی اور سلور جوبلی منائی۔ شہر کے وسط میں ہونے کی وجہ سے ہر شخص کی ان تک دسترس تھی ، نشاط اور پرنس سینما پر جب بھی کوئی پاکستانی فلم کامیابی کا ریکارڈ بناتی بڑے بڑے فنکار خود چل کر یہاں آتے۔ ان فنکاروں میں شہنشاہ جذبات کا لقب رکھنے والے اداکار محمد علی،چاکلیٹی ہیرو وحیدمراد، اداکار ندیم ، سدھیر، سنتوش ، شبنم، مہدی حسن اور میڈیم نورجہاں ۔۔۔سمیت کون سا گلوکار و فنکار تھا جو اس زمانے میں ان سنیما گھروں میں نہ آتا ہوگا۔ “
انور حمید کف افسوس ملتے ہوئے کہتے ہیں۔”آج میں ان جلے ہوئے سنیماہالز کو دیکھنے گیا تو گویا آنکھیں نم ہوگئیں۔ ان سنیماہالز پرماضی میں بھی میرا بہت آناجانا رہا ہے۔ میرے یار ددست احباب ، ان کے ساتھ یہاں گزرے ہوئے شب و روز اور وہ محفلیں ۔۔۔سب کی یادیں مجھے برسوں پیچھے لے گئیں۔ میں نے جلے ہوئے سنیماہالز کا بہت گہرائی سے مشاہدہ کیا۔ اس کی ہر ہر چیز مجھے میرے ماضی سے جوڑ گئی۔‘‘
”بمبینو سینما کا وہ فرنٹ جہاں لوگ بلیک میں ٹکٹیں خریدنے کے لئے چوری چوری ایک دوسرے سے نظروں ہی نظروں میں پوچھا کرتے تھے ، وہ آج مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔ گراوٴنڈ فلور، ہال کا اندرونی حصہ جہاں فلم بینوں کے لئے نشستیں لگیں تھیں، سب جل جل گئیں۔“
” پرنس سینما تو گویا پورا کا پورا راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ ٹکٹ ونڈوز،پروجیکٹر روم۔کچھ بھی نہیں بچا۔ یہی ہال دوسرے سنیما کا بھی ہے۔یہاں کے وہ اے سیز بھی جل گئے جو دن بھر کی گرمی کے بعد ٹھنڈک بھرے ماحول میں اپنی پسند کی فلم دیکھنے کا دل فریب بہانا ہوا کرتے تھے۔ سنیماہالز کی چھتیں بھی کئی جگہ سے گر گئی ہیں“
انہوں نے مزید کہا” مجھے کسی عینی شاہد نے بتایا ہے کہ ”ظالم لوگ“ اپنے ساتھ ایسا کیمیکل لائے تھے جو دیکھتے ہی دیکھتے آگ پکڑ لیتا ہے ۔ایسی آگ جس پر آسانی سے قابو نہیں پایاجاسکتا۔ اس بات کا کوئی ثبوت تو نہیں لیکن اس بیان میں کتنے فیصد سچائی ہے اس کا کچھ کچھ اندازہ جلے ہوئے سنیماہالزکو دیکھ کر ہوتا ہے۔سچ پوچھئے تو یہ سینما ہالز ہی نہیں جلے، اس دور میں بھی سب سے سستی تفریح کا ’نایاب ذریعہ“ جل گیا، کئی خاندانوں کا معاشی قتل ہوگیا، کئی لوگ بے روزگار ہوگئے اور سب سے بڑھ کر ۔وہ پاکستانی فلم انڈسٹری جس میں زندگی کی تھوڑی سی رمق باقی تھی وہ بھی آج گمنام موت کا شکار ہوگئی۔“