صدرِ پاکستان آصف زرداری نے اقوام متحدہ سے اپنے خطاب کا آغاز اِس متنازعہ فلم کی مذمّت سے کیا جس پر دنیا بھر کے مسلمان احتجاج کر رہے ہیں۔ اُن کے الفاظ میں: ’’عالمی برادری کو اِس پر خاموش نہیں رہنا چاہیئے اور ایسے اقدامات کوغیر قانونی قرار دے دینا چاہیئے جِن سے دنیا کا امن تباہ ہوتا ہو اور آزادیِ اظہار کے نام پر دنیا کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جائے‘‘۔
اُنھوں نے اِس معاملے پر اقوام متحدہ سے’ فوری ایکشن‘ لینے کا مطالبہ کیا۔
اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے، صدر زرداری نے بتایا کہ پاکستان کئی سالوں سے اقوام متحدہ کی امن فورس کے لیے سب سے زیادہ فوجی فراہم کر رہا ہے، جِن کی تعداد فی الوقت 10000 سے زیادہ ہے۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ سلامتی کونسل کےغیر مستقل رکن کے طور پر پاکستان کا انتخاب کر کے عالمی برادری نے پاکستان پر اعتماد ظاہر کیا ہے۔
صدر زرداری نے گزشتہ چند سالوں میں ملک میں آنے والی قدرتی آفات کے دوران اقوام متحدہ کی امداد کا شکریہ ادا کیا۔
اپنے خطاب میں صدر زرداری کا کہنا تھا کہ دنیا پاکستان سے بہت سے سوال کرتی ہے ، لیکن وہ اس لیے ان کا جواب نہیں دیں گے کہ کیونکہ ان کا جواب 7000 سے زائد پاکستانی فوجی اور پولیس والوں اور 37000 سے زائد عام شہریوں کی جانوں کا نذرانہ دے کر دیا جا چکا ہے۔
اُنھوں نے اقوام عالم کو بتایا کہ پاکستان کےموجودہ حالات آمروں کے ادوارِ اقتدار کا نتیجہ ہیں اور اِن آمروں کو عالمی برادری کی حمایت حاصل تھی۔
پاکستان کے صدر نے کہا کہ پاکستان کے عوام سے مزید قربانی کا مطالبہ کر کے ’’ہمارے مُردوں کی یادوں اور زندوں کی تکلیف کا مذاق نہ اُڑایا جائے۔ میرے لوگوں سے وہ مطالبہ نہ کیا جائے جو کسی نے کسی سے نہ کیا ہوگا۔ پاکستان کی معصوم خواتین اور بچوں کو مجرم نہ قرار دیا جائے‘‘۔
اپنی حکومت کی کارکردگی کی تفصیل بتاتے ہوئے صدر زرداری نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں یہ پہلی سویلین حکومت ہوگی جو اپنا پانچ سالہ دور ِحکومت پورا کرے گی۔ اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ اُن کے دور میں پارلیمان نے تاریخی قوانین پاس کیے ہیں۔ قومی اسمبلی سماجی اصلاحات لے کر آئی ہے، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے لیے کمیشن قائم کیے گئے ہیں، الیکشن کمیشن کو آزاد بنایا گیا ہے، اور سول سوسائٹی جمہوری اقدار کے سائے میں پنپ رہی ہے۔
ملک کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صدر زرداری کا کہنا تھا کہ یہ جمہوری حکومت کی پالیسی سازی کا ثبوت ہیں کہ افغانستان میں پاکستان نے افغان سیاست کے تمام نامور اشخاص سے تعلقات اور دوستی قائم کرنا شروع کی ہے۔
ایک طرف جہاں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے صدرِ پاکستان نے ان کے لیے ایک آزاد ریاست اور اقوام متحدہ میں ان کی رکنیت کی حمایت کی تو وہیں دوسری طرف کشمیر کے عوام کے لیے بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کا مطالبہ کیا۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی کامیابیوں نہیں بلکہ اُس کی ناکامیوں کی علامات ہے۔
اپنے خطاب میں صدر زرداری نے پاکستان کو یورپی منڈیوں تک رسائی دینے پر یورپی یونین کا شکریہ ادا کیا۔
اس کے علاوہ پاکستانی صدر نے خطّے میں ہیروئن کی تجارت میں اضافے اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کی طرف بھی توجّہ دلائی اور کہا کہ یہ پیسہ پوری دنیا میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال ہورہا ہے۔
صدر زرداری نے اقوامِ عالم سے درخواست کی کہ دنیا کے بہتر مسقتبل کے لیے عالمی سطح پر درپیش اہم مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کیا جائے۔
اُنھوں نے اِس معاملے پر اقوام متحدہ سے’ فوری ایکشن‘ لینے کا مطالبہ کیا۔
اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے، صدر زرداری نے بتایا کہ پاکستان کئی سالوں سے اقوام متحدہ کی امن فورس کے لیے سب سے زیادہ فوجی فراہم کر رہا ہے، جِن کی تعداد فی الوقت 10000 سے زیادہ ہے۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ سلامتی کونسل کےغیر مستقل رکن کے طور پر پاکستان کا انتخاب کر کے عالمی برادری نے پاکستان پر اعتماد ظاہر کیا ہے۔
صدر زرداری نے گزشتہ چند سالوں میں ملک میں آنے والی قدرتی آفات کے دوران اقوام متحدہ کی امداد کا شکریہ ادا کیا۔
اپنے خطاب میں صدر زرداری کا کہنا تھا کہ دنیا پاکستان سے بہت سے سوال کرتی ہے ، لیکن وہ اس لیے ان کا جواب نہیں دیں گے کہ کیونکہ ان کا جواب 7000 سے زائد پاکستانی فوجی اور پولیس والوں اور 37000 سے زائد عام شہریوں کی جانوں کا نذرانہ دے کر دیا جا چکا ہے۔
اُنھوں نے اقوام عالم کو بتایا کہ پاکستان کےموجودہ حالات آمروں کے ادوارِ اقتدار کا نتیجہ ہیں اور اِن آمروں کو عالمی برادری کی حمایت حاصل تھی۔
پاکستان کے صدر نے کہا کہ پاکستان کے عوام سے مزید قربانی کا مطالبہ کر کے ’’ہمارے مُردوں کی یادوں اور زندوں کی تکلیف کا مذاق نہ اُڑایا جائے۔ میرے لوگوں سے وہ مطالبہ نہ کیا جائے جو کسی نے کسی سے نہ کیا ہوگا۔ پاکستان کی معصوم خواتین اور بچوں کو مجرم نہ قرار دیا جائے‘‘۔
اپنی حکومت کی کارکردگی کی تفصیل بتاتے ہوئے صدر زرداری نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں یہ پہلی سویلین حکومت ہوگی جو اپنا پانچ سالہ دور ِحکومت پورا کرے گی۔ اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ اُن کے دور میں پارلیمان نے تاریخی قوانین پاس کیے ہیں۔ قومی اسمبلی سماجی اصلاحات لے کر آئی ہے، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے لیے کمیشن قائم کیے گئے ہیں، الیکشن کمیشن کو آزاد بنایا گیا ہے، اور سول سوسائٹی جمہوری اقدار کے سائے میں پنپ رہی ہے۔
ملک کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صدر زرداری کا کہنا تھا کہ یہ جمہوری حکومت کی پالیسی سازی کا ثبوت ہیں کہ افغانستان میں پاکستان نے افغان سیاست کے تمام نامور اشخاص سے تعلقات اور دوستی قائم کرنا شروع کی ہے۔
ایک طرف جہاں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے صدرِ پاکستان نے ان کے لیے ایک آزاد ریاست اور اقوام متحدہ میں ان کی رکنیت کی حمایت کی تو وہیں دوسری طرف کشمیر کے عوام کے لیے بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کا مطالبہ کیا۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی کامیابیوں نہیں بلکہ اُس کی ناکامیوں کی علامات ہے۔
اپنے خطاب میں صدر زرداری نے پاکستان کو یورپی منڈیوں تک رسائی دینے پر یورپی یونین کا شکریہ ادا کیا۔
اس کے علاوہ پاکستانی صدر نے خطّے میں ہیروئن کی تجارت میں اضافے اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کی طرف بھی توجّہ دلائی اور کہا کہ یہ پیسہ پوری دنیا میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال ہورہا ہے۔
صدر زرداری نے اقوامِ عالم سے درخواست کی کہ دنیا کے بہتر مسقتبل کے لیے عالمی سطح پر درپیش اہم مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کیا جائے۔