نئی دہلی —
بھارت اپنے سماجی بہبود کے پروگرام میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور رشوت خوری کے بعد غربیوں کو خوراک کی بجائے نقد رقم دینے کے منصوبے کو آگے بڑھارہاہے۔ غریبوں کو امداد کی فراہمی کا یہ پروگرام دنیا کا سب سے بڑا پروگرام ہے، لیکن اربوں ڈالر مالیت کی خوراک مستحق افراد تک پہنچنے سے پہلے ہی خورد برد ہوجاتی ہے۔
دارالحکومت نئی دہلی کے مغربی حصے میں واقع ایک غریب بستی میں رہنے والے آٹو رکشا ڈرائیور راج کمار کو گندم اور چینی کی خریداری کے لیے حکومت ہرماہ تقریباً 20 ڈالر کی امداد دیتی ہے۔ کمار کو یہ رقم راشن کے بدلے میں نقدی دینے کے تجرباتی پروگرام کے تحت مل رہی ہے۔ کمار پیسے ملنے پربہت خوش ہے۔
اس کاکہناہے کہ سرکار ی راشن سٹور سے ملنے والی گندم کا معیار اکثر اوقات انتہائی ناقص ہوتا ہے، اور بعض دفعہ تو وہ اتنی خراب ہوتی ہے کہ اسے جانور تک نہیں کھاسکتے۔ رقم ہاتھ میں ہوتو اچھے معیار کی خوراک خریدی جاسکتی ہے۔
کمار کا یہ بھی کہناتھا کہ کئی بار تو ایسا ہوا کہ اسے راشن نہیں ملا، کیونکہ وہ اسٹور کو فراہم ہی نہیں کیا گیاتھا۔
غربیوں میں خوراک کی تقسیم کا بھارتی پروگرام لگ بھگ پچاس سال پرانا ہے جس کے تحت اربوں ڈالر مالیت کی خوراک غربیوں کے لیے رکھی جاتی ہے۔ غریبوں میں خوراک کی تقسیم کا یہ دنیا کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔ مستحق افراد کی آمدنی کے مطابق خوراک یا تو مفت فراہم کی جاتی ہے یا پھر رعایتی نرخوں پر ملتی ہے۔
اس پروگرام پر پچھلے سال تقریباً 10 ارب ڈالر کی رقم صرف کی گئی تھی۔
لیکن رشوت خوری اور خورا ک کے زیاں نے اس پروگرام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سپریم کورٹ اور میڈیا کے کئی تحقیقاتی جائزوں سے یہ انکشاف ہوچکاہے کہ غریبوں کی امدادی خوراک کا ایک بڑا حصہ بدعنوان عہدے دار چوری کرکے اسے مارکیٹ کی قیمتوں پر بیچ دیتے ہیں۔
خوراک کے امدادی پروگرام کی نگرانی پر مامور سپریم کورٹ کے کمشنر نریندرہ سکسینہ کہتے ہیں کہ سرکاری اعداد وشمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ بہت گھمبیر ہے۔
ان کا کہناہے کہ پلاننگ کمشن کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ تقریباً 58 فی صد خوراک غریبوں اور مستحق افراد تک نہیں پہنچ پاتی۔ ریاست بہار میں تو یہ صورت حال انتہائی خراب ہے۔ وہاں ریاستی سطح پر بہت بدعنوانی ہوتی ہے۔ 50 فی صد راشن کارڈ ایسے افراد کو دیے گئے ہیں جو غریب نہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ راشن کی تقسیم میں دھوکہ دہی کا طریقہ بڑا سادہ ہے۔ مستحق افراد کی فہرست میں جعلی ناموں کی بھرمار ہے یا پھر ایسے افراد شامل ہیں جواپنی آمدنی کی سطح کے لحاظ سے امداد کے مستحق نہیں ہیں۔
امدای خوراک میں بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ اور خردبرد پر قابو پانے اور اس نظام کو شفاف بنانے کے لیے حکومت الیکٹرانک جانچ پڑتال کا نظام نافذ کررہی ہے اوربھارتیوں کو جاری کیے جانے والے شناختی کارڈ استعمال میں لائے جارہے ہیں۔ آٹھ ریاستوں میں اس نظام کے تحت مستحق افراد کو براہ راست نقد رقم کی منتقلی شروع کردی گئی ہے۔
20 کروڑ سے زیادہ مستحق افراد کو اس نئے پروگرام پر منتقل کیا جاچکاہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ نقد رقوم دینے سے رشوت خوری کم کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن ان کا یہ بھی کہناہے کہ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ اکثر غریبوں کے بینک اکاؤنٹ نہیں ہیں ، خاص طور پر دور افتادہ علاقوں میں، جہاں غربت شدید ہے۔
یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ خورا ک کی خرید کے لیے دی جانے والی رقوم کا غلط استعمال ہوسکتاہے۔ اسے کنبے کا کوئی طاقت ور شخص شراب اور جوئے پر اڑاسکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ کیرالہ اور چھتیس گڑھ جیسی ریاستوں نے خورا ک کی تقسیم کے پروگرام میں سے رشوت خوری اور لوٹ مار ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں اور اس پر بڑی حد تک قابو پالیا ہے۔ دوسری ریاستوں کو بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ بھارت میں اب بھی غربت کی سطح بہت بلند ہے اور ملک میں پانچ سال سے کم عمر نصف بچوں کو ابھی تک غذائی قلت کا سامنا ہے۔
دارالحکومت نئی دہلی کے مغربی حصے میں واقع ایک غریب بستی میں رہنے والے آٹو رکشا ڈرائیور راج کمار کو گندم اور چینی کی خریداری کے لیے حکومت ہرماہ تقریباً 20 ڈالر کی امداد دیتی ہے۔ کمار کو یہ رقم راشن کے بدلے میں نقدی دینے کے تجرباتی پروگرام کے تحت مل رہی ہے۔ کمار پیسے ملنے پربہت خوش ہے۔
اس کاکہناہے کہ سرکار ی راشن سٹور سے ملنے والی گندم کا معیار اکثر اوقات انتہائی ناقص ہوتا ہے، اور بعض دفعہ تو وہ اتنی خراب ہوتی ہے کہ اسے جانور تک نہیں کھاسکتے۔ رقم ہاتھ میں ہوتو اچھے معیار کی خوراک خریدی جاسکتی ہے۔
کمار کا یہ بھی کہناتھا کہ کئی بار تو ایسا ہوا کہ اسے راشن نہیں ملا، کیونکہ وہ اسٹور کو فراہم ہی نہیں کیا گیاتھا۔
غربیوں میں خوراک کی تقسیم کا بھارتی پروگرام لگ بھگ پچاس سال پرانا ہے جس کے تحت اربوں ڈالر مالیت کی خوراک غربیوں کے لیے رکھی جاتی ہے۔ غریبوں میں خوراک کی تقسیم کا یہ دنیا کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔ مستحق افراد کی آمدنی کے مطابق خوراک یا تو مفت فراہم کی جاتی ہے یا پھر رعایتی نرخوں پر ملتی ہے۔
اس پروگرام پر پچھلے سال تقریباً 10 ارب ڈالر کی رقم صرف کی گئی تھی۔
لیکن رشوت خوری اور خورا ک کے زیاں نے اس پروگرام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سپریم کورٹ اور میڈیا کے کئی تحقیقاتی جائزوں سے یہ انکشاف ہوچکاہے کہ غریبوں کی امدادی خوراک کا ایک بڑا حصہ بدعنوان عہدے دار چوری کرکے اسے مارکیٹ کی قیمتوں پر بیچ دیتے ہیں۔
خوراک کے امدادی پروگرام کی نگرانی پر مامور سپریم کورٹ کے کمشنر نریندرہ سکسینہ کہتے ہیں کہ سرکاری اعداد وشمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ بہت گھمبیر ہے۔
ان کا کہناہے کہ پلاننگ کمشن کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ تقریباً 58 فی صد خوراک غریبوں اور مستحق افراد تک نہیں پہنچ پاتی۔ ریاست بہار میں تو یہ صورت حال انتہائی خراب ہے۔ وہاں ریاستی سطح پر بہت بدعنوانی ہوتی ہے۔ 50 فی صد راشن کارڈ ایسے افراد کو دیے گئے ہیں جو غریب نہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ راشن کی تقسیم میں دھوکہ دہی کا طریقہ بڑا سادہ ہے۔ مستحق افراد کی فہرست میں جعلی ناموں کی بھرمار ہے یا پھر ایسے افراد شامل ہیں جواپنی آمدنی کی سطح کے لحاظ سے امداد کے مستحق نہیں ہیں۔
امدای خوراک میں بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ اور خردبرد پر قابو پانے اور اس نظام کو شفاف بنانے کے لیے حکومت الیکٹرانک جانچ پڑتال کا نظام نافذ کررہی ہے اوربھارتیوں کو جاری کیے جانے والے شناختی کارڈ استعمال میں لائے جارہے ہیں۔ آٹھ ریاستوں میں اس نظام کے تحت مستحق افراد کو براہ راست نقد رقم کی منتقلی شروع کردی گئی ہے۔
20 کروڑ سے زیادہ مستحق افراد کو اس نئے پروگرام پر منتقل کیا جاچکاہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ نقد رقوم دینے سے رشوت خوری کم کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن ان کا یہ بھی کہناہے کہ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ اکثر غریبوں کے بینک اکاؤنٹ نہیں ہیں ، خاص طور پر دور افتادہ علاقوں میں، جہاں غربت شدید ہے۔
یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ خورا ک کی خرید کے لیے دی جانے والی رقوم کا غلط استعمال ہوسکتاہے۔ اسے کنبے کا کوئی طاقت ور شخص شراب اور جوئے پر اڑاسکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ کیرالہ اور چھتیس گڑھ جیسی ریاستوں نے خورا ک کی تقسیم کے پروگرام میں سے رشوت خوری اور لوٹ مار ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں اور اس پر بڑی حد تک قابو پالیا ہے۔ دوسری ریاستوں کو بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ بھارت میں اب بھی غربت کی سطح بہت بلند ہے اور ملک میں پانچ سال سے کم عمر نصف بچوں کو ابھی تک غذائی قلت کا سامنا ہے۔