خلیج بنگال میں ایک کشتی ڈوبنےکے بعد اس پر سوار کم ازکم ایک سوافراد لاپتا ہیں۔ ایک سو سے زیادہ روہنگیا نسل کے مسلمان برما میں جاری تشدد سے اپنی جانیں بچانے کے لیے کشتی کے ذریعے فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے۔
بنگلہ دیش کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ کشتی ڈوبنے کے بعد صرف چند افراد کی جانیں بچائی جاسکی ہیں ۔
اس بارے میں متضاد اطلاعات ہیں کہ کشتی ڈوبنے کا واقعہ کب اور کہاں پیش آیاتھا۔
زیادہ تر عہدے داروں کا کہناہے کہ پناہ گزینوں کو لے جانے والی کشتی منگل اور بدھ کی رات برما اور بنگلہ دیش کے سرحدی پانیوں میں اس وقت ڈوب گئی جب ملاح اسے ملائیشیا لے جانے کی کوشش کررہے تھے۔
برما کی مشرقی ریاست راکین میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر علاقے کے راہنماؤں کی تشویش مسلسل بڑھ رہی ہے اور امدادی عہدے داروں کو خوف ہے کہ بحران بڑے پیمانے پر مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔
حال ہی میں ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کے سیکرٹری جنرل سورین پٹسووان برما میں بین الاقوامی مداخلت کی اپیل کرچکے ہیں اور پناہ گزینوں کے عالمی ادارے نے کہا ہے کہ اس بحران میں اسے وسائل کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔
اقوام متحدہ کا کہناہے کہ گذشتہ ہفتے مغربی ریاست راکین سے مزید 22 ہزار افراد بے گھر ہونے کےبعد فسادات میں بے گھرہونے والے افراد کی تعداد 75 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
پناہ گزینوں کے عالمی ادارے نے تشدد سے اپنی جانیں بچا کر بھاگنے والوں کو پناہ دینے سے انکار پر بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک پر نکتہ چینی کی ہے۔ ہمسایہ ممالک پناہ دینے کی بجائے ، انہیں واپس برما کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔
روہنگیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا اصل وطن بنگلہ دیش تھا مگر اب وہ کئی نسلوں سے برما میں رہ رہے ہیں۔ لیکن انہیں ابھی تک وہاں کی شہریت نہیں دی گئی ہے اور ان کی حیثیت ایسے غیر ملکی باشندوں کی ہے جن کا دنیا بھر میں کوئی وطن نہیں ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی ایک ایسی اقلیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جنہیں سب سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔
بنگلہ دیش کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ کشتی ڈوبنے کے بعد صرف چند افراد کی جانیں بچائی جاسکی ہیں ۔
اس بارے میں متضاد اطلاعات ہیں کہ کشتی ڈوبنے کا واقعہ کب اور کہاں پیش آیاتھا۔
زیادہ تر عہدے داروں کا کہناہے کہ پناہ گزینوں کو لے جانے والی کشتی منگل اور بدھ کی رات برما اور بنگلہ دیش کے سرحدی پانیوں میں اس وقت ڈوب گئی جب ملاح اسے ملائیشیا لے جانے کی کوشش کررہے تھے۔
برما کی مشرقی ریاست راکین میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر علاقے کے راہنماؤں کی تشویش مسلسل بڑھ رہی ہے اور امدادی عہدے داروں کو خوف ہے کہ بحران بڑے پیمانے پر مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔
حال ہی میں ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کے سیکرٹری جنرل سورین پٹسووان برما میں بین الاقوامی مداخلت کی اپیل کرچکے ہیں اور پناہ گزینوں کے عالمی ادارے نے کہا ہے کہ اس بحران میں اسے وسائل کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔
اقوام متحدہ کا کہناہے کہ گذشتہ ہفتے مغربی ریاست راکین سے مزید 22 ہزار افراد بے گھر ہونے کےبعد فسادات میں بے گھرہونے والے افراد کی تعداد 75 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
پناہ گزینوں کے عالمی ادارے نے تشدد سے اپنی جانیں بچا کر بھاگنے والوں کو پناہ دینے سے انکار پر بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک پر نکتہ چینی کی ہے۔ ہمسایہ ممالک پناہ دینے کی بجائے ، انہیں واپس برما کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔
روہنگیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا اصل وطن بنگلہ دیش تھا مگر اب وہ کئی نسلوں سے برما میں رہ رہے ہیں۔ لیکن انہیں ابھی تک وہاں کی شہریت نہیں دی گئی ہے اور ان کی حیثیت ایسے غیر ملکی باشندوں کی ہے جن کا دنیا بھر میں کوئی وطن نہیں ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی ایک ایسی اقلیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جنہیں سب سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔