امریکہ کی میامی یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک سائنسی تحقیق سے یہ پتا چلا ہے کہ بیمار دل کے پٹھوں کی مرمت کے لیے کسی صحت مند شخص کی جانب سے عطیہ کیے گئے سٹم سیل، مریض کے اپنے سٹم سیلز کی نسبت زیادہ فائدہ مند ہیں ۔
یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے صحت مندافراد اور دل کے مریضوں کے سٹم سیلز سے لیبارٹری میں دل کے پٹھے تیار کیے اورتجربات سے انہیں معلوم ہوا کہ صحت مند افراد کے سٹم سیل سے تیار کردہ ٹشو زیادہ مفید تھے۔
میامی یونیوسٹی کے سائنس دانوں کا کہناہے کہ انہوں نے اپنے تجربات کے لیے ہڈیوں کے گودے کے سٹم سیل استعمال کیے جن کے خلاف جسم کا قدرتی معدافعتی نظام ردعمل ظاہر نہیں کرتا۔
بالغ انسان کے سٹم سیل مختلف اقسام کے مخصوص خلیے بناتے ہیں اور انہیں کئی عشروں سے ہڈیوں کے گودے کی پیوندکاری میں استعمال کیا جارہاہے۔
خلیوں کی اتنی مقدار حاصل کرنے کے لیے، جن سے دل کے پٹھے دوبارہ پیدا ہوسکیں، تقریباً دو ماہ لگ جاتے ہیں۔
13 ماہ تک جاری رہنے والی اس سائنسی تحقیق میں 30 ایسے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جنہیں کئی سال پہلے ہارٹ اٹیک ہوچکاتھا۔
نصف مریضوں کا علاج عطیے میں ملنے والے سٹم سیل سے کیا گیا جب کہ باقی نصف کے علاج میں ان کے اپنے سٹم سیل استعمال ہوئے۔
سٹم سیل سے تیارکردہ خلیے دل کے متاثرہ حصوں میں سرنج کے ذریعے داخل کیے گئے۔
ایک سال کے بعد دونوں گروپوں کے معائنے سے پتا چلا کہ ان افراد کی صحت اور دل کی حالت زیادہ بہترتھی جنہیں سٹم سیل کا عطیہ ملا تھا۔
میامی یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اس ہفتے کیلی فورنیا میں امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کانفرنس میں اپنی تحقیق کے نتائج پیش کیے اور وہ اس طریقہ کار کو بطور علاج اپنائے جانے سے پہلے بڑے پیمانے پر طبی تجربات کی منصوبہ بندی کررہے ہیں
یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے صحت مندافراد اور دل کے مریضوں کے سٹم سیلز سے لیبارٹری میں دل کے پٹھے تیار کیے اورتجربات سے انہیں معلوم ہوا کہ صحت مند افراد کے سٹم سیل سے تیار کردہ ٹشو زیادہ مفید تھے۔
میامی یونیوسٹی کے سائنس دانوں کا کہناہے کہ انہوں نے اپنے تجربات کے لیے ہڈیوں کے گودے کے سٹم سیل استعمال کیے جن کے خلاف جسم کا قدرتی معدافعتی نظام ردعمل ظاہر نہیں کرتا۔
بالغ انسان کے سٹم سیل مختلف اقسام کے مخصوص خلیے بناتے ہیں اور انہیں کئی عشروں سے ہڈیوں کے گودے کی پیوندکاری میں استعمال کیا جارہاہے۔
خلیوں کی اتنی مقدار حاصل کرنے کے لیے، جن سے دل کے پٹھے دوبارہ پیدا ہوسکیں، تقریباً دو ماہ لگ جاتے ہیں۔
13 ماہ تک جاری رہنے والی اس سائنسی تحقیق میں 30 ایسے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جنہیں کئی سال پہلے ہارٹ اٹیک ہوچکاتھا۔
نصف مریضوں کا علاج عطیے میں ملنے والے سٹم سیل سے کیا گیا جب کہ باقی نصف کے علاج میں ان کے اپنے سٹم سیل استعمال ہوئے۔
سٹم سیل سے تیارکردہ خلیے دل کے متاثرہ حصوں میں سرنج کے ذریعے داخل کیے گئے۔
ایک سال کے بعد دونوں گروپوں کے معائنے سے پتا چلا کہ ان افراد کی صحت اور دل کی حالت زیادہ بہترتھی جنہیں سٹم سیل کا عطیہ ملا تھا۔
میامی یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اس ہفتے کیلی فورنیا میں امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کانفرنس میں اپنی تحقیق کے نتائج پیش کیے اور وہ اس طریقہ کار کو بطور علاج اپنائے جانے سے پہلے بڑے پیمانے پر طبی تجربات کی منصوبہ بندی کررہے ہیں