پنوم پن —
آسیان ممالک کے ایک وزیر خارجہ نے کہاہے کہ بحیرہ جنوبی چین کے تنازع سے منسلک ممالک کواس کے حل تک پہنچنے کے لیے سرکاری رابطے برقرار رکھتے ہوئے اپنے دروازے کھلے رکھنے چاہیں۔
انڈونیشیا کے وزیر خارجہ مارتی ناتا لیگاوا نے کہاہے کہ جنوبی بحیرہ چین کے متازع علاقوں میں محاذ آرائیوں کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم کے ارکان اور چین کے درمیان ہاٹ لائن کھلی رہنی چاہیے۔
ان کا کہناہے کہ اس طریقہ کار پر عمل جاری رہنا چاہیے چاہے آسیان ممالک اور چین، جو متنازعہ سمندر کے ایک بڑے حصے کا دعویدار ہے، پانیوں کے استعمال سے متعلق طویل عرصے سے التوا میں پڑے ہوئے کسی ممکنہ حل تک پہنچنے سے دور رہتے ہیں۔
ان کا کہناہے کہ ایسے وقت میں جب کہ ہم سی او سی کو روبہ عمل لانے کے لیے کام کررہے ہیں، انڈونیشیا چاہتا ہے کہ آسیان اور چین کے درمیان رابطوں کے لیے ایک ہاٹ لائن قائم کردی جائے تاکہ سی اوسی نہ ہونے کی وجہ سے کسی تنازع کی صورت میں ایک دوسرے سے رابطے اور بات چیت کے ذریعے حادثے کے امکان میں کمی لائی جاسکے۔
یہ تجویز اس جانب ایک اور اشارہ ہے کہ مبصرین وسیع تر تناظر میں کیا توقع کررہے ہیں۔ چین اور آسیان اس تنازع کے خاتمے کے لیے کسی متفقہ نقطے پر پہنچنے سے ابھی کوسوں دور ہیں۔
آسان تنظیم کے چار ممالک یعنی فلپائن، ملائیشیا، برونائی اور ویت نام جنوبی بحیرہ چین کے حصوں پر اپنی ملکیت کے دعویدار ہیں ۔ لیکن چین آب راستوں کے ایک بہت بڑے حصے پر اپنا حق جتاتا ہے جو آسان کے ساتھ اس کے تنازع کا مرکزی پہلو ہے۔ آسان کے یہ چاروں ملک چین پر یہ زور دیتے آئے ہیں کہ وہ ان کے بلاک کے ساتھ اس تنازع کو حل کرے لیکن بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ چین اس کی بجائے ہر ملک سے علیحدہ علیحدہ معاملہ طے کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
ناتا لیگاوا کہتے ہیں کہ اگرچہ آنے والے دنوں میں کسی طریقہ کار پر پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ہے ، لیکن جمعے سے شروع ہونے والی کانفرنس میں رکن ممالک کے لیڈروں کو اس سمت لازمی طورپر کسی پیش رفت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس سلسلے میں اہم پہلو یہ ہے کہ ہمیں متحرک ہونا چاہیے۔ انڈونیشیا یہ یقینی بنانا چاہتا ہے کہ وقت ضائع نہ ہو، اگر ہم نے رک گئے تو حالات ہمیں پیچھے دھکیل دیں گے۔
آسیان ممالک کے سربراہان اتوار کے روز بالمشافہ اجلاس کے لیے کمبوڈیا میں اکھٹے ہورہے ہیں ، جب کہ توقع ہے کہ امریکی صدر براک اوباما پیر کی شام وہاں پہنچیں گے۔
انڈونیشیا کے وزیر خارجہ مارتی ناتا لیگاوا نے کہاہے کہ جنوبی بحیرہ چین کے متازع علاقوں میں محاذ آرائیوں کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم کے ارکان اور چین کے درمیان ہاٹ لائن کھلی رہنی چاہیے۔
ان کا کہناہے کہ اس طریقہ کار پر عمل جاری رہنا چاہیے چاہے آسیان ممالک اور چین، جو متنازعہ سمندر کے ایک بڑے حصے کا دعویدار ہے، پانیوں کے استعمال سے متعلق طویل عرصے سے التوا میں پڑے ہوئے کسی ممکنہ حل تک پہنچنے سے دور رہتے ہیں۔
ان کا کہناہے کہ ایسے وقت میں جب کہ ہم سی او سی کو روبہ عمل لانے کے لیے کام کررہے ہیں، انڈونیشیا چاہتا ہے کہ آسیان اور چین کے درمیان رابطوں کے لیے ایک ہاٹ لائن قائم کردی جائے تاکہ سی اوسی نہ ہونے کی وجہ سے کسی تنازع کی صورت میں ایک دوسرے سے رابطے اور بات چیت کے ذریعے حادثے کے امکان میں کمی لائی جاسکے۔
یہ تجویز اس جانب ایک اور اشارہ ہے کہ مبصرین وسیع تر تناظر میں کیا توقع کررہے ہیں۔ چین اور آسیان اس تنازع کے خاتمے کے لیے کسی متفقہ نقطے پر پہنچنے سے ابھی کوسوں دور ہیں۔
آسان تنظیم کے چار ممالک یعنی فلپائن، ملائیشیا، برونائی اور ویت نام جنوبی بحیرہ چین کے حصوں پر اپنی ملکیت کے دعویدار ہیں ۔ لیکن چین آب راستوں کے ایک بہت بڑے حصے پر اپنا حق جتاتا ہے جو آسان کے ساتھ اس کے تنازع کا مرکزی پہلو ہے۔ آسان کے یہ چاروں ملک چین پر یہ زور دیتے آئے ہیں کہ وہ ان کے بلاک کے ساتھ اس تنازع کو حل کرے لیکن بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ چین اس کی بجائے ہر ملک سے علیحدہ علیحدہ معاملہ طے کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
ناتا لیگاوا کہتے ہیں کہ اگرچہ آنے والے دنوں میں کسی طریقہ کار پر پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ہے ، لیکن جمعے سے شروع ہونے والی کانفرنس میں رکن ممالک کے لیڈروں کو اس سمت لازمی طورپر کسی پیش رفت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس سلسلے میں اہم پہلو یہ ہے کہ ہمیں متحرک ہونا چاہیے۔ انڈونیشیا یہ یقینی بنانا چاہتا ہے کہ وقت ضائع نہ ہو، اگر ہم نے رک گئے تو حالات ہمیں پیچھے دھکیل دیں گے۔
آسیان ممالک کے سربراہان اتوار کے روز بالمشافہ اجلاس کے لیے کمبوڈیا میں اکھٹے ہورہے ہیں ، جب کہ توقع ہے کہ امریکی صدر براک اوباما پیر کی شام وہاں پہنچیں گے۔