رسائی کے لنکس

امریکی جج نے پیدائشی حق شہریت کو ختم کرنے کے صدارتی حکم کو عارضی طور پر روک دیا


ریاست واشنگٹن کے اٹارنی جنرل نک براؤن نے 23 جنوری 2025 کو سئیٹل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کو عارضی طور پر روکے جانے کے بعد صحافیوں سے بات کی۔
ریاست واشنگٹن کے اٹارنی جنرل نک براؤن نے 23 جنوری 2025 کو سئیٹل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کو عارضی طور پر روکے جانے کے بعد صحافیوں سے بات کی۔

  • محکمہ انصاف نے ایک بیان میں کہا کہ وہ صدر کے ایگزیکٹو آرڈر کا " بھرپور طریقے سے دفاع" کرے گا جو کہ "امریکی آئین کی 14ویں ترمیم کی صحیح تشریح کرتا ہے۔"
  • قانونی چارہ جوئی کرنے والوں کا استدلال ہے کہ امریکی آئین کی 14ویں ترمیم امریکہ میں پیدا ہونے والے لوگوں کے لیے شہریت کی ضمانت دیتی ہے اور ریاستیں ایک صدی سے اس ترمیم کی یہی تشریح کر رہی ہیں۔
  • یہ مقدمہ امریکہ بھر میں 22 ریاستوں اور تارکین وطن کے حقوق کے متعدد گروپوں کی طرف سے لائے جانے والے پانچ مقدمات میں سے ایک ہے۔
  • امریکہ دنیا کے ان 30 ملکوں میں شامل ہےجہاں ان کی سرزمین پر پیدا ہونے والوں کو شہریت کا حق ملتا ہے۔
  • صڈر ٹرمپ کے حکم میں زور دیا گیا ہے کہ امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے بچے یو نائیٹڈ اسٹیٹس کے دائرہ اختیار کے تابع نہیں ہیں۔

امریکہ کے ایک وفاقی جج نے جمعرات کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیدائشی حقِ شہریت کی ازسر نو تعریف کرنے والے ایگزیکٹو آرڈر کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے عارضی طور پر روک دیا۔محکمہ انصاف نے کہا کہ وہ صدر کے ایگزیکٹو آرڈر کا " بھرپور طریقے سے دفاع" کرے گا جو بقول اسکے"امریکی آئین کی 14ویں ترمیم کی صحیح تشریح کرتا ہے۔"

واضح رہے کہ امریکی ریاستوں ایریزونا، الینوائے، اوریگون اور واشنگٹن نے صدر کے ایگزیکٹو آرڈر کو عارضی طور پر روکنے کے لیے حکم امتناعی کی عدالت میں استدعا کی تھی۔

اس سلسلے میں قانونی چارہ جوئی کرنے والوں کا استدلال ہے کہ امریکی آئین کی 14ویں ترمیم امریکہ میں پیدا ہونے والے لوگوں کے لیے شہریت کی ضمانت دیتی ہے اور ریاستیں ایک صدی سے اس ترمیم کی یہی تشریح کر رہی ہیں۔

امریکی آئین کی 14ویں ترمیم کے تحت امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والے بچے کو شہریت کا حق حاصل ہے جس کی توثیق 1868 میں کی گئی تاکہ خانہ جنگی کے بعد سابق غلاموں کے لیے امریکی شہریت کو یقینی بنایاجا سکے۔

ٹرمپ کے حکم نامے کے تحت 19 فروری کے بعد پیدا ہونے والے ان بچوں کو جن کے والدین امریکہ میں غیر قانونی طور پر موجود ہیں، امریکی شہریت نہیں دی جائے گی۔ اس کے تحت امریکی ادارے ان کے لیے کسی قسم کی دستاویزات جاری نہیں کریں گے اور نہ ہی کوئی ایسی ریاستی دستاویز قبول کریں گے جس میں ان بچوں کی امریکی شہریت کو تسلیم کیا گیا ہو۔

یہ پہلا موقع تھا کہ یو ایس ڈسٹرکٹ جج کے سامنے یہ کیس زیر سماعت آیا اور اس کا اطلاق قومی سطح پر ہوتا ہے۔

ریاست واشنگٹن کے ڈسٹرکٹ جج جان کوفینور نے محکمہ انصاف کے وکیل سے استفسار کیا کہ وہ اس حکم کو آئینی کیسے سمجھ سکتے ہیں؟

جب اٹارنی بریٹ شومیٹ نے کہا کہ وہ ایک مکمل بریفنگ میں اس کی وضاحت کرنے کا موقع چاہتے ہیں تو جج کوفینور نے انہیں بتایا کہ سماعت میں اس کا موقع ملے گا۔

یہ مقدمہ امریکہ بھر میں 22 ریاستوں اور تارکین وطن کے حقوق کے متعدد گروپوں کی طرف سے لائے جانے والے پانچ مقدمات میں سے ایک ہے۔

اس مقدمے میں ان اٹارنیز جنرل کی ذاتی شہادتیں شامل ہیں جو پیدائشی حق کے لحاظ سے امریکی شہری ہیں۔

مقدمے میں ان حاملہ خواتین کے نام بھی شامل ہیں جنہیں ڈر ہے کہ ان کے بچے امریکی شہری نہیں بن پائیں گے۔

سماعت کرنے والے 84 سالہ جج کوفینور نے، جنہیں سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن نے مقرر کیا تھا، کہا،"یہ ایک صریحاً غیر آئینی حکم ہے۔"

خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق سماعت کے دوران جج نے کہا کہ صدارتی حکم آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

جمعرات کا فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کو 14 دنوں کے لیے ایگزیکٹو آرڈر پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کرنے سے روکتا ہے۔ اس دوران فریقین ٹرمپ کے حکم کے میرٹ(اس کے درست یا نہ درست ہونے) کے بارے میں مزید دلائل پیش کریں گے۔

جج کوفینور نےیہ فیصلہ کرنے کے لیے 6 فروری کو ایک سماعت طے کی ہےکہ ایک ایسے وقت میں جب کارروائی جاری ہےآیا اس کیس کو طویل مدت تک روکا جانا چاہئے۔

محکمہ انصاف کے وکیل بریٹ شومیٹ نے کہا کہ وہ احترام کے ساتھ اس بات سے متفق نہیں کہ یہ غیر آئینی حکم ہے۔

شومیٹ نے جج سے استدعا کی کہ انہیں اس کیس کے حق میں مکمل بریفنگ دینے کا موقع دیا جائے نہ کہ اس پر عمل درآمد کو روکنے کے لیے 14 دن کا عارضی حکم امتناعی جاری کیا جائے۔

محکمہ انصاف نے کہا کہ اسے امید ہے کہ اس مقدمے کے میریٹ کے حق میں دلائل عدالت اور امریکی عوام کے سامنے رکھے جائیں گے جو قوم کے قوانین کا نفاذ دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔

مقدمہ دائر کرنے والی ریاستوں کی طرف سے بحث کرتے ہوئے ریاست واشنگٹن کے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل لین پولوزولا نے حکومت کی اس دلیل کی مخالفت کی کہ غیر قانونی طور پر رہنے والے والدین کے بچے امریکہ کے "دائرہ اختیار کے تابع" نہیں ہیں۔

"کیا وہ امیگریشن عدالتوں کے فیصلوں کے تابع نہیں ہیں؟" انہوں نے پوچھا. ’’کیا انہیں یہاں رہتے ہوئے قانون پر عمل نہیں کرنا چاہیے؟‘‘

پولوزولا نے کہا کہ مذکورہ ایگزیکٹو آرڈر ملک بھر میں لاکھوں شہریوں کو متاثر کرے گا جو اس نئے اصول کے تحت اپنی شہریت سے محروم ہو جائیں گے۔

"جب تک عدالت اس کیس پر غور کرتی ہے پیدائش کو روکا نہیں جا سکتا۔"انہوں نے کہا

ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ صدر کی طرف سے دستخط کیے گئے حکم نامے کا اثر صرف 19 فروری کے بعد پیدا ہونے والوں پر پڑے گا، جب یہ آرڈر نافذ العمل ہو گا۔

لہذا، انتظامیہ کے مطابق، اس معاملے میں عارضی ریلیف کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

خیال رہے کہ امریکہ دنیا کے ان 30 ملکوں میں شامل ہےجہاں ان کی سرزمین پر پیدا ہونے والوں کو شہریت کا حق ملتا ہے۔

اس حق کی توثیق امریکہ میں خانہ جنگی کے بعد کے حالات میں 1868 میں کی گئی ۔

توثیق کے مطابق وہ تمام افراد جو امریکہ میں پیدا ہوئے یا اس کے دائرہ اختیار کے تابع ہیں، وہ یونائیڈ اسٹیٹس اور اس ریاست کے شہری ہیں جہاں وہ رہتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے حکم میں زور دیا گیا ہے کہا مریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے بچے یو نائیٹڈ اسٹیٹس کے دائرہ اختیار کے تابع نہیں ہیں۔

ایگزیکٹو آرڈر وفاقی ایجنسیوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ایسے بچوں کی شہریت کو تسلیم نہ کریں جن کے والدین میں سے کم از کم ایک امریکی شہری نہ ہو۔

(اس خبر میں شامل معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG