برما کی حکومت نے ریاست راکین میں امن بحال کرنے کے لیے اقدامات کرنے کاوعدہ کر لیا ہے جہاں بودھوں اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان گزشتہ چھ ماہ میں دو بار تصادم ہو چکا ہے ۔ حکومت نے قانون کی حکمرانی کی بحالی کا خصوصی طور پر وعدہ کیا ہے لیکن اس ہفتے ستوے کی ایک عدالت کی طرف سے کیےگئے کے بعد اس وعدے پر سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایک نیوز کانفرنس میں ، برما کے سرحدی امور کے وزیر تھین ہٹالےنے،جو ریاست راکین میں امن لانے کی کوششوں کی نگرانی کر رہےہیں ،وعدہ کیا ہے کہ علاقے میں قانون نافذ کرنے والے عہدے دار یہ یقینی بنا رہے ہیں کہ ان کو انصاف کے کٹیہرے تک لایا جائے جنہوں نے اس تشدد کو بھڑکا یا تھا جس کا آغاز سب سے پہلے جون میں ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون کی حکمرانی بحال کرنے کے لیے کچھ کارروائیاں کی گئی ہیں اورہم نے علاقے میں کچھ ایڈمنسٹریٹرز مقرر کیے ہیں اورہمارے کچھ خصوسی تفتیشی یونٹس بھی کام کر رہے ہیں۔
ان وعدوں کے باوجود، انسانی حقوق کے بین الاقوامی گروپس کو تشویش ہے کہ اس بارے میں شواہد میں اضافہ ہو رہا ہے کہ قیدیوں کو مناسب کارروائی کے بغیر حراست میں رکھا جا رہا ہے ۔ ہیومن رائٹس واچ کے میتھیو سمتھ حال ہی میں راکین ریاست میں تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ ضرور معلوم ہے کہ شمالی ریاست راکین میں سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ پورے شمالی حصےمیں حراستی مراکز ہیں اور ان تمام مقامات میں مبینہ طور پر قیدی موجود ہیں، اس لیے یقینی طور پر اس چیز کی اشد ضرورت ہے کہ ان جیلوں پر غیر جانبدارانہ طور پر کچھ نظررکھی جائے اور یہ پتہ چلایا جائے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے ۔
اس ہفتے نسلی طور پر ایک روہنگیا اون اونگ کو ، راکین میں بد امنی کی ایک انکوائری کے سلسلے میں پندرہ سال قید کی سزا سنائی گئی ۔ تاہم اسے غیر ملکی کرنسی رکھنے اور تشدد پر مبنی فوٹوز ای میل کرنے جیسے شاذ ہی لگائے گئے الزام میں قید میں رکھا گیا ۔
ایمنیسٹی انٹر نیشنل نے خبر دی ہے کہ اسے قانونی مدد تک رسائی حاصل نہیں تھی ۔
اون اونگ کی بیٹی کو بھی گرفتار کیا گیا جو اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے کے لیے کام کرتی ہیں۔وہ ابھی تک رنگون کی جیل میں قید ہے۔
ابو تہائے ، جو روہنگیا کے ایک کمیونٹی لیڈر ہیں ، اورسابق منتخب رکن اسمبلی ہیں، کہتے ہیں کہ اون اونگ وہ واحد روہنگیا نہیں ہیں جسے کسی منصفانہ مقدمے کے سخت قید کی سزا ملی ہے ۔
کیاؤ ہلا اونگ کہتے ہیں کہ185 ملزم ابھی تک جیل میں دوسرے مقدمات کے تحت حراست میں تھے اور دو کو جیل میں اذیت بھی دی گئی اور وہ دس دن قبل انتقال کر گئے ہیں
مرنے والے دو افراد میں سے ایک کی شناخت 56 سالہ شوکر گائی ا ور دوسرے کی 60سالہ فر احمدکے طور پر ہوئی ۔ کیاؤ ہلا اونگ کہتے ہیں کہ جب ان کی میتیں تدفین کے لیے ان کے گاؤن پہنچیں تو ان پر اذیت رسانی کے نشان تھے۔
انسانی حقوق کے سر گرم کارکن کہتے ہیں کہ راکین میں تشدد کی انکوائری اس چیز کی ایک اور یاد دہانی ہے کہ برما کے عدالتی نظام پر حالیہ اصلاحات کا زیادہ تر اثر نہیں ہوا ہے اور ایک غیر جانبدارانہ تفتیش کے لیے درکا ر آزادی کا ابھی تک فقدان ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک نیوز کانفرنس میں ، برما کے سرحدی امور کے وزیر تھین ہٹالےنے،جو ریاست راکین میں امن لانے کی کوششوں کی نگرانی کر رہےہیں ،وعدہ کیا ہے کہ علاقے میں قانون نافذ کرنے والے عہدے دار یہ یقینی بنا رہے ہیں کہ ان کو انصاف کے کٹیہرے تک لایا جائے جنہوں نے اس تشدد کو بھڑکا یا تھا جس کا آغاز سب سے پہلے جون میں ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون کی حکمرانی بحال کرنے کے لیے کچھ کارروائیاں کی گئی ہیں اورہم نے علاقے میں کچھ ایڈمنسٹریٹرز مقرر کیے ہیں اورہمارے کچھ خصوسی تفتیشی یونٹس بھی کام کر رہے ہیں۔
ان وعدوں کے باوجود، انسانی حقوق کے بین الاقوامی گروپس کو تشویش ہے کہ اس بارے میں شواہد میں اضافہ ہو رہا ہے کہ قیدیوں کو مناسب کارروائی کے بغیر حراست میں رکھا جا رہا ہے ۔ ہیومن رائٹس واچ کے میتھیو سمتھ حال ہی میں راکین ریاست میں تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ ضرور معلوم ہے کہ شمالی ریاست راکین میں سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ پورے شمالی حصےمیں حراستی مراکز ہیں اور ان تمام مقامات میں مبینہ طور پر قیدی موجود ہیں، اس لیے یقینی طور پر اس چیز کی اشد ضرورت ہے کہ ان جیلوں پر غیر جانبدارانہ طور پر کچھ نظررکھی جائے اور یہ پتہ چلایا جائے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے ۔
اس ہفتے نسلی طور پر ایک روہنگیا اون اونگ کو ، راکین میں بد امنی کی ایک انکوائری کے سلسلے میں پندرہ سال قید کی سزا سنائی گئی ۔ تاہم اسے غیر ملکی کرنسی رکھنے اور تشدد پر مبنی فوٹوز ای میل کرنے جیسے شاذ ہی لگائے گئے الزام میں قید میں رکھا گیا ۔
ایمنیسٹی انٹر نیشنل نے خبر دی ہے کہ اسے قانونی مدد تک رسائی حاصل نہیں تھی ۔
اون اونگ کی بیٹی کو بھی گرفتار کیا گیا جو اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے کے لیے کام کرتی ہیں۔وہ ابھی تک رنگون کی جیل میں قید ہے۔
ابو تہائے ، جو روہنگیا کے ایک کمیونٹی لیڈر ہیں ، اورسابق منتخب رکن اسمبلی ہیں، کہتے ہیں کہ اون اونگ وہ واحد روہنگیا نہیں ہیں جسے کسی منصفانہ مقدمے کے سخت قید کی سزا ملی ہے ۔
کیاؤ ہلا اونگ کہتے ہیں کہ185 ملزم ابھی تک جیل میں دوسرے مقدمات کے تحت حراست میں تھے اور دو کو جیل میں اذیت بھی دی گئی اور وہ دس دن قبل انتقال کر گئے ہیں
مرنے والے دو افراد میں سے ایک کی شناخت 56 سالہ شوکر گائی ا ور دوسرے کی 60سالہ فر احمدکے طور پر ہوئی ۔ کیاؤ ہلا اونگ کہتے ہیں کہ جب ان کی میتیں تدفین کے لیے ان کے گاؤن پہنچیں تو ان پر اذیت رسانی کے نشان تھے۔
انسانی حقوق کے سر گرم کارکن کہتے ہیں کہ راکین میں تشدد کی انکوائری اس چیز کی ایک اور یاد دہانی ہے کہ برما کے عدالتی نظام پر حالیہ اصلاحات کا زیادہ تر اثر نہیں ہوا ہے اور ایک غیر جانبدارانہ تفتیش کے لیے درکا ر آزادی کا ابھی تک فقدان ہے۔