انسانی حقوق کے کارکنوں نے برما میں سینکڑوں قیدیوں کی حالیہ رہائی کے حکومتی اقدام کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ اس کارروائی کا مقصد امریکی صدر براک اوباما کے دورے سے پہلے سیاسی فوائد کا حصول ہے۔
برما کے سرکاری میڈیا نے جمعرات کو بتایا کہ صدر تھین سین 452 قیدیوں کو معافی دے رہے ہیں ۔
عہدے داروں کا کہناہے کہ رہاکیے جانے والوں میں سیاسی قیدی بھی شامل ہیں ، لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہاہے کہ انہیں ابھی تک کوئی سیاسی قیدی رہا ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیا۔
نوجوانوں کی جمہوریت نواز تحریک کے ایک عہدے دار موئی تھوئے کا کہناہے کہ برما کی اصلاح پسند حکومت بھروسے کے قابل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت محض گیم کھیل رہی ہے اور وہ اپنے فیصلوں میں مخلص نہیں ہے۔اگر وہ واقعی مخلص ہوتی تو تمام سیاسی قیدیوں کو فوری رہا کردیتی۔
صدر براک اوباما ایک تاریخی دورے پر پیر کو برما پہنچ رہے ہیں جسے وسیع تناظر میں امریکہ کی جانب سے برما کی گذشتہ ڈیڑھ سال سے جاری جمہوری اصلاحات کی تائید و حمایت کے طور پر دیکھا جارہاہے۔
مارچ 2011 میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے صدر تھین سین نے متعدد سیاسی اصلاحات نافذ کی ہیں جن میں طویل عرصے سے نظر بند جمہوریت نواز راہنما آنگ ساں سوچی کی رہائی اور انہیں سیاسی عمل میں شرکت کی اجازت دینے جیسے اہم فیصلے بھی شامل ہیں۔
برما کی حکومت سینکڑوں قیدیوں کو رہا کرچکی ہے جن میں سیاسی بنیادوں پر جیلوں میں ڈالے گئے افراد بھی شامل ہیں لیکن برما کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کا کہناہے کہ اب بھی کم ازکم 330 سیاسی قیدی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
امریکہ متعدد بار باقی ماندہ تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے برما کی نئی سویلین حکومت پر زور دے چکاہے۔
برما کے سرکاری میڈیا نے جمعرات کو بتایا کہ صدر تھین سین 452 قیدیوں کو معافی دے رہے ہیں ۔
عہدے داروں کا کہناہے کہ رہاکیے جانے والوں میں سیاسی قیدی بھی شامل ہیں ، لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہاہے کہ انہیں ابھی تک کوئی سیاسی قیدی رہا ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیا۔
نوجوانوں کی جمہوریت نواز تحریک کے ایک عہدے دار موئی تھوئے کا کہناہے کہ برما کی اصلاح پسند حکومت بھروسے کے قابل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت محض گیم کھیل رہی ہے اور وہ اپنے فیصلوں میں مخلص نہیں ہے۔اگر وہ واقعی مخلص ہوتی تو تمام سیاسی قیدیوں کو فوری رہا کردیتی۔
صدر براک اوباما ایک تاریخی دورے پر پیر کو برما پہنچ رہے ہیں جسے وسیع تناظر میں امریکہ کی جانب سے برما کی گذشتہ ڈیڑھ سال سے جاری جمہوری اصلاحات کی تائید و حمایت کے طور پر دیکھا جارہاہے۔
مارچ 2011 میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے صدر تھین سین نے متعدد سیاسی اصلاحات نافذ کی ہیں جن میں طویل عرصے سے نظر بند جمہوریت نواز راہنما آنگ ساں سوچی کی رہائی اور انہیں سیاسی عمل میں شرکت کی اجازت دینے جیسے اہم فیصلے بھی شامل ہیں۔
برما کی حکومت سینکڑوں قیدیوں کو رہا کرچکی ہے جن میں سیاسی بنیادوں پر جیلوں میں ڈالے گئے افراد بھی شامل ہیں لیکن برما کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کا کہناہے کہ اب بھی کم ازکم 330 سیاسی قیدی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
امریکہ متعدد بار باقی ماندہ تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے برما کی نئی سویلین حکومت پر زور دے چکاہے۔