رسائی کے لنکس

پرانے کپڑے خریدنا بھی مشکل ہو گیا


لائٹ ہاؤس کی لنڈا مارکیٹ
لائٹ ہاؤس کی لنڈا مارکیٹ

سستے داموں گرم کپڑوں کی خریداری ایک زمانے میں غریب اور متوسط گھرانے کے افراد ہی کیا کرتے تھے مگر اب امیر اور ایلیٹ کلاس طبقہ بھی لنڈابازار کا رخ کرتا ہے، جس کا سبب مہنگائی میں اضافہ ہے۔

سردی کا موسم شروع ہوتے ہی شہریوں کو گرم کپڑوں کی فکر ستانے لگتی ہے۔ مہنگائی میں اضافے کے باعث بہت سے شہری گرم کپڑوں کی خریداری کیلئے نئے کپڑوں کے بجائے پرانے کپڑوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔مہنگائی میں اضافے کے باعث جہاں نئے گرم کپڑے خریدنا عام آدمی کی دسترس سے باہرہوگیا ہے، وہیں پرانے کپڑوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔

کراچی شہر میں پرانے کپڑے فروخت کرنے کا سب سے بڑا بازار شہر کے وسط ایم اے جناح روڈ پر قائم "لائٹ ہاؤس لنڈا بازار" کے نام سے مشہور ہے، پرانے استعمال شدہ کپڑے فروخت کرنےوالا یہ"لنڈا بازار" کراچی شہر کا سب سے قدیم اور وسیع بازار ہے جہاں ہر قسم کے چھوٹے بڑے استعمال شدہ پرانے گرم کپڑے،سوئیٹرز،گرم شالیں، جوتے،کمبل، لحاف،پردے،مفلرز،لیدر جیکٹس،گرم کوٹ دستیاب ہوتے ہیں۔

پورے کراچی سے شہریوں کی بڑی تعداد اس بازار سے سردیوں کی خریداری کرنے آتی ہے۔استعمال شدہ کپڑوں کی قیت نئے کپڑوں کی نسبت کافی کم ہوتی ہے اس لئے شہری اس بازار کا رخ کرتے ہیں۔نئے گرم کپڑوں کی قیمت تو ہزاروں میں ہوتی ہے مگر پرانے گرم کپڑے چند سو روپوں میں آسانی سے مل جاتے ہیں۔

سستے داموں گرم کپڑوں کی خریداری ایک زمانے میں غریب اور متوسط گھرانے کے افراد ہی کیا کرتے تھے مگر اب امیر اور ایلیٹ کلاس طبقہ بھی لنڈابازار کا رخ کرتا ہے، جس کا سبب مہنگائی میں اضافہ ہے۔نوجوانوں میں اس کا رجحان زیادہ ہے جسکی وجہ نوجوان طبقہ ویسٹرن ڈیزائنز کے کپڑے زیب تن کرنا پسند کررہاہے، اکثر نوجوان لڑکیوں سمیت لڑکے بھی فیشن کی مناسبت سے لنڈابازاروں سے خریداری کرتے ہیں، کیوں کہ یہ پرانے کپڑے سستے ہوتے ہیں اور کوالٹی کے حساب سے بھی معیاری ہوتے ہیں۔


مگر جیسے جیسے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے، مہنگائی کے اثرات لنڈابازار کے پرانے کپڑوں کی قیمتوں پر بھی پڑے ہیں۔

وائس آف امریکہ کی نمائندہ نے موجودہ صورت حال جاننے کے لیے لائٹ ہاؤس کے لنڈا بازار کا دورہ کیا۔
وہاں لوگوں کا رش تھا اور کئی خواتین قیمت میں کمی کرنے کے لیے بحث و تکرار کرتی دکھائی دیں اور کہیں دکانداروں اور گاہکوں کے درمیان قیمت پر ہی بحث و مباحثہ ہوتا دکھائی دیا۔

ایک خاتون نے وائس آف امریکہ کی نمائندہ سے گفتگو میں کہا کہ" مہنگائی میں اضافہ کے سبب ہی تو ہم جیسا متوسط طبقہ یہاں سے خریداری کرنے آتا ہے مگر اس سال تو حد ہی ہوگئی قیمت بہت بڑھ گئی ہے ، پرانے کپڑے خریدنا بھی مشکل ہوگیا ہے"۔

ایک اور خاتون نے وی او اے کو بتایا کہ "گرم کپڑے خریدنا بھی ضروری ہے سردی بڑھ جائے گی تو ان کی قیمتیں اور بھی بڑھ جائینگی اس لئے شروع میں ہی گرم کپڑے خریدلیں تو اچھا ہے"

کمبل فروخت کرنےوالے ایک دکاندار نے وی او اے کی نمائندہ کو بتایا کہ" ہم جو مال مارکیٹ فروخت کیلئے لاتے ہیں وہ تین گنا مہنگا ہوگیا ہے، اس لیے ہم مہنگا فروخت کرنے پر مجبور ہیں"۔

گرم جیکٹس فروخت کرنے والے ایک دکاندار کا کہنا تھا کہ' یہ مال دوسرے ملکوں سے آتا ہے تو ہمیں اس کی کسٹم اور ٹیکس ڈیوٹی بھی دینی ہوتی ہے، حکومت کی جانب سے ڈیوٹی ٹیکس میں بھی اضافہ ہوگیا ہے تو مال بھی اسی حساب سے مہنگا بک رہا ہے"۔

خریداری کے دوران ایک صاحب نے وی او اےکو بتایا کہ: اس سال کم کپڑے خریدے ہیں کیوں کہ جیب اجازت نہیں دے رہی ہے کہ پرانے کپڑے ہی کھل کر خرید سکیں، پچھلے سال کی نسبت دگنی مہنگائی ہوگئی ہے ۔"

بازار میں رش ہونے کے باوجود مہنگائی میں اضافے کے سبب خریداروں کی جانب سے گرم کپڑوں کی خریداری میں کمی دیکھنے میں آئی، بچوں کے گرم کپڑوں پر ذرا زیادہ رش تھا مگر وہاں بھی قیمت پر بحث چل رہی تھی،کچھ خریدار تو قیمت پوچھ کر ہی آگے بڑھ جاتے اور کچھ خریدار قیمت میں کمی کروانے پر اصرار کرتے اور مجبورا ً مہنگے کپڑے اور جوتے خریدرہے تھے۔
XS
SM
MD
LG