کراچی کےباسیوں نے اس بار عید نسبتاًخوف کے عالم میں گزاری ۔ایک جانب تو پورے رمضان ہی فائرنگ، ٹارگٹ کلنگ ، دستی بموں کے حملے اور دیگر پرتشدد واقعات جاری رہے، تو دوسری جانب چاند رات کو موبائل فون سروس کی معطلی نے اِس خوف میں مزید اضافہ کردیا۔
اس خوف کا سب سے زیادہ اثر کاروباری مراکز پر پڑا تو دوسری جانب لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے چاند رات گھر پر رہ کر گزارنے میں عافیت جانی۔ تاہم، دل پھر بھی انجانے خوف میں ڈوبا رہا۔
رمضان کے وسط میں کراچی کےمصروف ترین تجارتی علاقے حیدری کی ایک ملٹی اسٹوری بلڈنگ ڈالمین مال کے قریب سے 30کلوگرام وزنی بم ملنے کے بعد سے ہی عید کی شاپنگ کے لئے خصوصی طور پر مشہور حیدری مارکیٹ اور گرد و نواح کے تجارتی مراکز میں سیکورٹی انتہائی سخت کردی گئی تھی۔ لہذا، جِن لوگوں نے بھی اِس علاقے کا رخ کیا وہ سخت سیکورٹی سے ہی خوف زدہ ہوگئے۔ اس کا اثر یہ پڑا کہ مارکیٹ میں خریداروں کا رش گزشتہ سالوں کے مقابلے میں کم رہا۔
کم وبیش یہی صورتحال ہارون شاپنگ مال ، ارم سینٹر اور نارتھ کراچی کی دیگر مارکیٹوں میں بھی رہی۔ رہی سہی کثر ناظم آباد میں واقع ایک مشہور ڈپارٹمنٹل اسٹور پر دستی بم کے حملے نے پوری کردی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ یہ حملہ بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ افراد کی جانب سے کیا گیا تھا ۔ ان افراد نے ڈپارٹمنٹل اسٹور کے مالک کو بھتہ نہ دینے کی دھمکی دی تھی اور دستی بم کا حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ چنانچہ، اس حملے کے سبب بھی خریداروں نے مارکیٹوں کا رخ کرنے میں انتہائی احتیاط برتی۔
ہارون شاپنگ سینٹر نارتھ کراچی کے ایک دکاندار محمد شاہد خان نے وی او اے سے تبادلہ ٴخیال کے دوران بتایا کہ آخری عشرے کے دوران جس دن نارتھ کراچی کے قریب مخصوص فرقے کے کئی افراد کو ہد ف لے کر مارا گیا اس روز مارکیٹ میں رات کے پہلے پہر ہی مارکیٹ انتظامیہ کی جانب سے دکانداروں سے جلد دکانیں بند کرنے کے اعلان نے لوگوں میں مزید خوف پیدا کردیااور مارکیٹ چند منٹوں میں ہی ویران ہوگئی۔
آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر کےمطابق گیارہ رمضان سے شہر کی 300 چھوٹی بڑی مارکیٹس اوسطاً پندرہ گھنٹے یومیہ کھلی رہیں۔ لیکن، اس کے باوجود اس سال 50ارب روپے کے عید سیزن کا ہدف پورا نہ ہوسکا۔ عید سے دو روز قبل شہر کے مختلف علاقوں پرتشدد کارروائیوں کےباعث آخری دو دن کاروبار بہت زیادہ متاثر ہوا ۔عموماً عید سیزن میں ہی ، عید کے فوری بعد شروع ہونے والی ’شادیوں کے سیزن‘کے لئے بھی ایڈوانس خریداری کرلی جاتی ہے مگر اس بار یہ رجحان بھی کم رہا۔
ایک خاتون دکاندار رخشی نے بتایا کہ موبائل فون سروس معطل ہونے سے لوگوں میں شدید خوف پیدا ہوگیا تھا ۔ چاند رات پر ہر سال رات بھر شاپنگ ہوتی ہے مگر چونکہ اس بار چاند رات کو 8بجے سے ہی فون سروس بند کردی گئی تھی لہذا لوگ گھروں تک محدود ہوگئے۔
ایک بزرگ شہری سردار حمد نے نمائندے کوبتایا” شہر کی فضاء میں اسی وقت سے خوف بڑھنے لگا تھا جب وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کا یہ بیان سامنے آتا تھا کہ اس بار عید کی نماز کے دوران دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ اس بیان کا آنا، شہر کے حالات خراب ہونا، اور مرے پر سو دُرے، فون سروس کی معطلی۔اس سب نے مل کر شہر کی فضا کو خوف زدہ بنادیا تھا۔ اس کا اثر عید یعنی پیر کی صبح تک برقرار رہا ۔ صبح دس بجے تک شہریوں نے نماز پڑھنے کے لئے مسجد اورعیدگاہ جاتے ہوئے بھی نہایت احتیاط برتی۔
یہی وجہ ہے کہ شہر بھر میں عید کی نماز کے اجتماعات بھی سخت ترین سیکورٹی میں ہوئے۔ عید گاہوں اور مساجد میں جانے والے نمازیوں پر سیکورٹی اہلکاروں نے کڑی نگاہ رکھی اور مساجد میں نمازیوں کو جامہ تلاشی کے بعد ہی اندر جانے کی اجازت دی گئی۔
اس خوف کا سب سے زیادہ اثر کاروباری مراکز پر پڑا تو دوسری جانب لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے چاند رات گھر پر رہ کر گزارنے میں عافیت جانی۔ تاہم، دل پھر بھی انجانے خوف میں ڈوبا رہا۔
رمضان کے وسط میں کراچی کےمصروف ترین تجارتی علاقے حیدری کی ایک ملٹی اسٹوری بلڈنگ ڈالمین مال کے قریب سے 30کلوگرام وزنی بم ملنے کے بعد سے ہی عید کی شاپنگ کے لئے خصوصی طور پر مشہور حیدری مارکیٹ اور گرد و نواح کے تجارتی مراکز میں سیکورٹی انتہائی سخت کردی گئی تھی۔ لہذا، جِن لوگوں نے بھی اِس علاقے کا رخ کیا وہ سخت سیکورٹی سے ہی خوف زدہ ہوگئے۔ اس کا اثر یہ پڑا کہ مارکیٹ میں خریداروں کا رش گزشتہ سالوں کے مقابلے میں کم رہا۔
کم وبیش یہی صورتحال ہارون شاپنگ مال ، ارم سینٹر اور نارتھ کراچی کی دیگر مارکیٹوں میں بھی رہی۔ رہی سہی کثر ناظم آباد میں واقع ایک مشہور ڈپارٹمنٹل اسٹور پر دستی بم کے حملے نے پوری کردی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ یہ حملہ بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ افراد کی جانب سے کیا گیا تھا ۔ ان افراد نے ڈپارٹمنٹل اسٹور کے مالک کو بھتہ نہ دینے کی دھمکی دی تھی اور دستی بم کا حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ چنانچہ، اس حملے کے سبب بھی خریداروں نے مارکیٹوں کا رخ کرنے میں انتہائی احتیاط برتی۔
ہارون شاپنگ سینٹر نارتھ کراچی کے ایک دکاندار محمد شاہد خان نے وی او اے سے تبادلہ ٴخیال کے دوران بتایا کہ آخری عشرے کے دوران جس دن نارتھ کراچی کے قریب مخصوص فرقے کے کئی افراد کو ہد ف لے کر مارا گیا اس روز مارکیٹ میں رات کے پہلے پہر ہی مارکیٹ انتظامیہ کی جانب سے دکانداروں سے جلد دکانیں بند کرنے کے اعلان نے لوگوں میں مزید خوف پیدا کردیااور مارکیٹ چند منٹوں میں ہی ویران ہوگئی۔
آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر کےمطابق گیارہ رمضان سے شہر کی 300 چھوٹی بڑی مارکیٹس اوسطاً پندرہ گھنٹے یومیہ کھلی رہیں۔ لیکن، اس کے باوجود اس سال 50ارب روپے کے عید سیزن کا ہدف پورا نہ ہوسکا۔ عید سے دو روز قبل شہر کے مختلف علاقوں پرتشدد کارروائیوں کےباعث آخری دو دن کاروبار بہت زیادہ متاثر ہوا ۔عموماً عید سیزن میں ہی ، عید کے فوری بعد شروع ہونے والی ’شادیوں کے سیزن‘کے لئے بھی ایڈوانس خریداری کرلی جاتی ہے مگر اس بار یہ رجحان بھی کم رہا۔
ایک خاتون دکاندار رخشی نے بتایا کہ موبائل فون سروس معطل ہونے سے لوگوں میں شدید خوف پیدا ہوگیا تھا ۔ چاند رات پر ہر سال رات بھر شاپنگ ہوتی ہے مگر چونکہ اس بار چاند رات کو 8بجے سے ہی فون سروس بند کردی گئی تھی لہذا لوگ گھروں تک محدود ہوگئے۔
ایک بزرگ شہری سردار حمد نے نمائندے کوبتایا” شہر کی فضاء میں اسی وقت سے خوف بڑھنے لگا تھا جب وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کا یہ بیان سامنے آتا تھا کہ اس بار عید کی نماز کے دوران دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ اس بیان کا آنا، شہر کے حالات خراب ہونا، اور مرے پر سو دُرے، فون سروس کی معطلی۔اس سب نے مل کر شہر کی فضا کو خوف زدہ بنادیا تھا۔ اس کا اثر عید یعنی پیر کی صبح تک برقرار رہا ۔ صبح دس بجے تک شہریوں نے نماز پڑھنے کے لئے مسجد اورعیدگاہ جاتے ہوئے بھی نہایت احتیاط برتی۔
یہی وجہ ہے کہ شہر بھر میں عید کی نماز کے اجتماعات بھی سخت ترین سیکورٹی میں ہوئے۔ عید گاہوں اور مساجد میں جانے والے نمازیوں پر سیکورٹی اہلکاروں نے کڑی نگاہ رکھی اور مساجد میں نمازیوں کو جامہ تلاشی کے بعد ہی اندر جانے کی اجازت دی گئی۔