پاکستان کے ایک صحافتی تحقیقاتی گروپ نے کہاہے کہ 2011 میں پاکستان کے صرف ایک تہائی قانون سازوں نے ٹیکس ادا کیا۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اگلے سال ملک میں عام انتخابات متوقع ہیں اور اس رپورٹ سے ان شکایات پر توجہ مرکوز ہوتی ہے کہ پاکستان کی زیادہ تر اشرافیہ ٹیکس دینے سے گریز کرتی ہے۔
سینٹر فار انویسٹی گیشن رپورٹنگ کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے ملک کے 446 قانون ساز وں اور سرکاری کابینہ کے 55 ارکان نے، جو وزیر وں اور مشیروں کی کل تعداد کا دو تہائی ہیں، پچھلے سال کوئی انکم ٹیکس نہیں دیا۔
بدھ کو جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر سیاست دانوں نے اپنی اصل آمدنی کے علاوہ، بطور قانون ساز اور حکومتی عہدے دار حاصل ہونے والی آمدنی پربھی ٹیکس کٹوانے سےگریز کیا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ جو سیاست دان ٹیکس ادا کرتے ہیں ، ان میں سے بھی اکثر نے اپنی اصل آمدنی سے کہیں کم ٹیکس دیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے سینیٹ کے ایک رکن مشاہد حسین نے گذشتہ سال جو انکم ٹیکس دیا، وہ ایک ڈالر سے بھی کم تھا۔
خبررساں ادارے روئیٹر کے نام ایک ای میل میں مشاہد حسین نے اپنی ٹیکس ریٹرن سے متعلق رپورٹ سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے ، ٹیکس کی مدت کے عرصے میں وہ سینیٹ کے رکن نہیں تھے اور ان کی آمدنی کا ذریعہ اپنے خاندان کی زرعی پیداوار تھی۔
زراعت پاکستان کا وہ شعبہ ہے جو ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہیں جہاں مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے ٹیکس دینے کی شرح سب سے کم ہے اور پاکستان کو ہر سال اربوں ڈالر کے قرضے اور امداد فراہم کرنے والے ممالک اور ادارے متعدد بار وہاں کے ٹیکس نظام کی خرابیوں کا مسئلہ اٹھا کر اصلاح پر زور دے چکے ہیں۔ ان اداروں میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یعنی آئی ایم ایف بھی شامل ہے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اگلے سال ملک میں عام انتخابات متوقع ہیں اور اس رپورٹ سے ان شکایات پر توجہ مرکوز ہوتی ہے کہ پاکستان کی زیادہ تر اشرافیہ ٹیکس دینے سے گریز کرتی ہے۔
سینٹر فار انویسٹی گیشن رپورٹنگ کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے ملک کے 446 قانون ساز وں اور سرکاری کابینہ کے 55 ارکان نے، جو وزیر وں اور مشیروں کی کل تعداد کا دو تہائی ہیں، پچھلے سال کوئی انکم ٹیکس نہیں دیا۔
بدھ کو جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر سیاست دانوں نے اپنی اصل آمدنی کے علاوہ، بطور قانون ساز اور حکومتی عہدے دار حاصل ہونے والی آمدنی پربھی ٹیکس کٹوانے سےگریز کیا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ جو سیاست دان ٹیکس ادا کرتے ہیں ، ان میں سے بھی اکثر نے اپنی اصل آمدنی سے کہیں کم ٹیکس دیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے سینیٹ کے ایک رکن مشاہد حسین نے گذشتہ سال جو انکم ٹیکس دیا، وہ ایک ڈالر سے بھی کم تھا۔
خبررساں ادارے روئیٹر کے نام ایک ای میل میں مشاہد حسین نے اپنی ٹیکس ریٹرن سے متعلق رپورٹ سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے ، ٹیکس کی مدت کے عرصے میں وہ سینیٹ کے رکن نہیں تھے اور ان کی آمدنی کا ذریعہ اپنے خاندان کی زرعی پیداوار تھی۔
زراعت پاکستان کا وہ شعبہ ہے جو ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہیں جہاں مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے ٹیکس دینے کی شرح سب سے کم ہے اور پاکستان کو ہر سال اربوں ڈالر کے قرضے اور امداد فراہم کرنے والے ممالک اور ادارے متعدد بار وہاں کے ٹیکس نظام کی خرابیوں کا مسئلہ اٹھا کر اصلاح پر زور دے چکے ہیں۔ ان اداروں میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یعنی آئی ایم ایف بھی شامل ہے۔