واشنگٹن —
یکم اپریل کو برما میں 16 غیر سرکاری نئے اخبارات کو لائسنس جاری کیے جائیں گے۔ یوں یہ اخبارات گذشتہ 50 برسوں میں پہلے ایسے خودمختار روزنامے ہوں گے جنہیں اس نوعیت کے اجازت نامے جاری کیے جائیں گے۔
برما کے صحافیوں نے اسے برما میں صحافت کے زمرے کا ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ لیکن، اس کے ساتھ ہی انہوں نے ملک میں موجود میڈیا پر حکومتی قدغن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اس نئے قانون کی رُو سے بہت سے موضوعات پر رپورٹنگ کرنے پر پابندی ہوگی، جس میں برمی فوج کی باغیوں کے ساتھ جھڑپیں بھی شامل ہیں، جبکہ، اس نئے قانون کی رو سے حکومت کے ساتھ نیوز پبلکیشنز کی رجسٹریشن نہ کرانے پر چھ ماہ قید کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
وائے فایو برما میں غیر سرکاری میڈیا تنظیم ’الیون میڈیا‘ سے بطور چیف ایڈیٹر منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’اگر حکومت جمہوریت کی بقا میں دلچسپی رکھتی ہے تو اسے اس قسم کی پابندیاں ختم کرنا ہوں گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ، ’اگر پارلیمان نے اس قانون کو منظور کر دیا اور اس کی وجہ سے برما میں میڈیا پر اثرات پڑے تو ہم اس کے خلاف ہر ممکن کارروائی کریں گے۔‘
یہ نیا قانون 1962ء کے اشاعتی قانون کی جگہ نافذ کیا جائے گا، جس میں حکومت کو اتنی طاقت حاصل تھی کہ وہ کسی بھی ایسے صحافی کو سزا دینے کی مجاز تھی، جس کا کام حکومت کے بقول، ’قومی مفاد‘ کے منافی ہو۔
وسری جانب، برما کے وزیر ِاطلاعات اونگ کیو نے اس بل کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ جب سے ملک میں میڈیا سنسرشپ ختم کی گئی ہے ملک میں کئی نئے اور ’زہریلے‘ اشاعتی ادارے سرگرم ِعمل ہیں۔ ان کے مطابق درجنوں رسالوں نے ایسی تصاویر شائع کی ہیں جو ’میانمار کی ثقافتی اقدار‘ سے میل نہیں کھاتیں۔
اس ماہ کے آغاز میں جب وزات ِاطلاعات کی جانب سے اشاعت اور چھپائی سے متعلق بل پارلیمان میں پیش کیا گیا تو بہت سے میڈیا گروپوں نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔
صحافیوں کی جانب سے شکایات کی وجہ سے اس قانون پر ووٹ کا عمل جون تک کے لیے روک دیا گیا۔
کیو من سو برما کے ایک مقامی ہفتہ وار رسالے کے ایڈیٹر ان چیف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پارلیمان کے ایوان ِ زیریں کے اسپیکر نے اس قانون پر بحث کی اجازت نہیں دی ’کیونکہ میڈیا کے بہت سے اداروں نے پارلیمانی عہدیداروں کو تنقیدی خط لکھے تھے۔‘
منگل کے روز برما کی وزارت ِ اطلاعات نے آٹھ دیگر میڈیا گروپوں کو یکم اپریل تک اشاعتی اجازت نامہ دینے کا اعلان کیا، جس کے بعد اشاعت کے اجازت ناموں یا لائسنس کی تعداد 16 ہو گئی ہے۔
2012سنہ میں انٹرنیٹ سے متعلق ایک کمپنی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق برما میں ایک فیصد سے بھی کم آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔
ان مشکل حالات کے باوجود، بہت سے صحافی اب بھی حالات سے پُرامید دکھائی دیتے ہیں۔
تھیہا سو ایک پرانے اور جید صحافی ہیں اور ’میانمار جرنلسٹس ایسوسی ایشن‘ کے نائب صدر بھی۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’میڈیا سے متعلق قانون سازی کا میانمار میں میڈیا کے اداروں پر گہرا اثر پڑا ہے۔ نجی اور پرنٹ میڈیا گذشتہ چالیس پچاس برسوں سے فوجی حکومت کے تابع رہا ہے اور اس نے بہت سخت پابندیوں میں اپنے فرائض ادا کیے ہیں۔ لیکن، اب ایسا نہیں ہے۔ پچھلے 50 سال کی سنسر شپ ختم ہو چکی ہے۔‘
برما کے صحافیوں نے اسے برما میں صحافت کے زمرے کا ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ لیکن، اس کے ساتھ ہی انہوں نے ملک میں موجود میڈیا پر حکومتی قدغن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اس نئے قانون کی رُو سے بہت سے موضوعات پر رپورٹنگ کرنے پر پابندی ہوگی، جس میں برمی فوج کی باغیوں کے ساتھ جھڑپیں بھی شامل ہیں، جبکہ، اس نئے قانون کی رو سے حکومت کے ساتھ نیوز پبلکیشنز کی رجسٹریشن نہ کرانے پر چھ ماہ قید کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
وائے فایو برما میں غیر سرکاری میڈیا تنظیم ’الیون میڈیا‘ سے بطور چیف ایڈیٹر منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’اگر حکومت جمہوریت کی بقا میں دلچسپی رکھتی ہے تو اسے اس قسم کی پابندیاں ختم کرنا ہوں گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ، ’اگر پارلیمان نے اس قانون کو منظور کر دیا اور اس کی وجہ سے برما میں میڈیا پر اثرات پڑے تو ہم اس کے خلاف ہر ممکن کارروائی کریں گے۔‘
یہ نیا قانون 1962ء کے اشاعتی قانون کی جگہ نافذ کیا جائے گا، جس میں حکومت کو اتنی طاقت حاصل تھی کہ وہ کسی بھی ایسے صحافی کو سزا دینے کی مجاز تھی، جس کا کام حکومت کے بقول، ’قومی مفاد‘ کے منافی ہو۔
وسری جانب، برما کے وزیر ِاطلاعات اونگ کیو نے اس بل کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ جب سے ملک میں میڈیا سنسرشپ ختم کی گئی ہے ملک میں کئی نئے اور ’زہریلے‘ اشاعتی ادارے سرگرم ِعمل ہیں۔ ان کے مطابق درجنوں رسالوں نے ایسی تصاویر شائع کی ہیں جو ’میانمار کی ثقافتی اقدار‘ سے میل نہیں کھاتیں۔
اس ماہ کے آغاز میں جب وزات ِاطلاعات کی جانب سے اشاعت اور چھپائی سے متعلق بل پارلیمان میں پیش کیا گیا تو بہت سے میڈیا گروپوں نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔
صحافیوں کی جانب سے شکایات کی وجہ سے اس قانون پر ووٹ کا عمل جون تک کے لیے روک دیا گیا۔
کیو من سو برما کے ایک مقامی ہفتہ وار رسالے کے ایڈیٹر ان چیف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پارلیمان کے ایوان ِ زیریں کے اسپیکر نے اس قانون پر بحث کی اجازت نہیں دی ’کیونکہ میڈیا کے بہت سے اداروں نے پارلیمانی عہدیداروں کو تنقیدی خط لکھے تھے۔‘
منگل کے روز برما کی وزارت ِ اطلاعات نے آٹھ دیگر میڈیا گروپوں کو یکم اپریل تک اشاعتی اجازت نامہ دینے کا اعلان کیا، جس کے بعد اشاعت کے اجازت ناموں یا لائسنس کی تعداد 16 ہو گئی ہے۔
2012سنہ میں انٹرنیٹ سے متعلق ایک کمپنی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق برما میں ایک فیصد سے بھی کم آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔
ان مشکل حالات کے باوجود، بہت سے صحافی اب بھی حالات سے پُرامید دکھائی دیتے ہیں۔
تھیہا سو ایک پرانے اور جید صحافی ہیں اور ’میانمار جرنلسٹس ایسوسی ایشن‘ کے نائب صدر بھی۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’میڈیا سے متعلق قانون سازی کا میانمار میں میڈیا کے اداروں پر گہرا اثر پڑا ہے۔ نجی اور پرنٹ میڈیا گذشتہ چالیس پچاس برسوں سے فوجی حکومت کے تابع رہا ہے اور اس نے بہت سخت پابندیوں میں اپنے فرائض ادا کیے ہیں۔ لیکن، اب ایسا نہیں ہے۔ پچھلے 50 سال کی سنسر شپ ختم ہو چکی ہے۔‘