لندن —
ایسی کہانی شاید آپ نے کسی فلم میں دیکھی ہو یا پھرشاید کہیں سنی ہو گی لیکن کبھی کبھی فلمی کہانیاں حقیقت بن جاتی ہیں۔ آج جس سچی کہانی کا ذکر ہم کرنے جارہے ہیں وہ دوعام لوگوں کی کہانی ہے جن کے سچے پیار نے اس عام کہانی کو بہت خاص بنا دیا ہے ۔
فلورین اور ایڈورڈ کی شادی کو چھ عشرے گزرچکے تھےاس کےباوجود انھیں ایک دوسرے سے الگ کرنا ممکن نہیں تھا اسی لیے شاید موت نے بھی انھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا۔
'اورلینز حب' کے ایک بلاگ کے مطابق،فلورین کی بیٹی رینی نے اپنے والدین کی محبت کی انوکھی داستان کو بیان کیا ہے جو سمجھتی ہیں کہ ان کے والدین پیار کی ایک ایسی کہانی رقم کر گئے ہیں جسے مدتوں یاد کیا جا ئے گا ۔
7 فروری کے روز فلورین ہییل نیویارک کے ایک اسپتال میں فوت ہوگئیں مگر دنیا سے جاتے ہوئے ان کا ہاتھ ہمیشہ کی طرح اپنے خاوند کے مضبوط ہاتھوں میں تھا جو خود موت سےچند گھنٹوں کے فاصلے پر تھے۔
مسٹر ایڈورڈ ہییل ایک جینٹلمین کی طرح فلورین کے جانے کا انتظارکررہے تھے تاکہ ، زندگی بھر ساتھ نبھانے کے وعدے کو پورا کرسکیں۔ فلورین کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی اگلے روز مسٹرہییل نے بھی ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں ۔
کہا جاتا ہے کہ محبت میں بہت طاقت ہوتی ہے شاید یہی طاقت 83 سالہ مسٹر ہییل کو شدید بیماری کے باوجود حوصلہ دیتی رہی وہ پچھلے پانچ برسوں سے گردے کی خرابی کے باعث ڈائیلسز پر تھے لیکن ایک ماہ قبل انھیں دل کا دورہ پڑا جس کے بعد انھیں نیو یارک کے 'روچیسٹر اسپتال' میں داخل کرایا گیا جہاں ان کے گردوں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا۔ مسٹر ہییل کی حالت نازک تھی ڈاکٹروں نے انھیں چند دنوں کا مہمان بتایا تھا ۔
4 فروری کو اچانک 82 سالہ فلورین ہییل ہارٹ فیل ہونے کی وجہ سے بیٹاویا کے 'یونائیٹیڈ میتھوڈسٹ اسپتال' میں داخل کرائی گئیں جو روچسٹر اسپتال سے 35 میل کی دوری پر واقع تھا ۔ فلورین کی حالت زیادہ بگڑتی گئی اورڈاکٹروں نے انھیں جواب دے دیا ۔
رینی کہتی ہے کہ ان کے لیے بہت مشکل تھا کہ وہ اپنے مرتے ہوئے والدین میں سے کس کے سرہانے جا کر روئیں ۔
لیکن قدرت نے ان کی یہ مشکل بھی آسان کر دی۔ 6 فروری رات کے آدھے پہر میں اچانک ان کے والد ہوش میں آگئے انھیں اب تک فلورین کے بارے میں کچھ نہیں پتا تھا مگر ہوش میں آتے ہی انھوں نے اپنی بیوی سے ملنے کی فرمائش کی کیونکہ وہ آخری وقت میں فلورین کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔
رینی ہرش کہ مطابق وہ رات بھر اپنے والد کو یونائیٹیڈ میتھوڈیسٹ اسپتال میں منتقل کرنے کے لیے دونوں اسپتالوں کو راضی کرتی رہیں کیونکہ مسٹر ہییل کا اس حالت میں سفر کرنا ناممکن تھا ادھر مسز ہییل کے اسپتال والے ایک مرتے ہوئے مریض کو اسپتال میں داخل کرنے پر راضی نہیں تھے تاہم کچھ سوشل ورکرز کی مدد سے اس معاملے کو حل کر لیا گیا ۔
ایمبولینس میں سفر کرنے سے پہلے مسٹر ہییل کی طبعیت میں سدھار آنا ڈاکٹروں کے لیےغیر معمولی بات تھی یہ ان کی مضبوط قوت ارادی تھی جس کی بدولت مسٹر ہییل پینتیس میل کا سفر کر کے اپنی اہلیہ کے آخری دیدار کے لیے ان کے بیڈ کے سرہانے تک جا پہنچے۔ اسپتال والوں نے میاں بیوی کو ملانے کے لیے ایک ہی کمرے میں ان کے بیڈز ایک ساتھ جوڑ دئیے تھے تاکہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے دنیا سے رخصت ہوسکیں۔
7فروری صبح کےساڑھے دس بجے فلورین نے ہمیشہ کے لیے آنکھ بند کر لیں تو 36 گھنٹے بعد مسٹر ہییل بھی دنیا سے رخصت ہو گئے ۔
فلورین اور مسٹر ایڈورڈ کی بے مثال محبت کی کہانی ساٹھ برس قبل ایک پارٹی سے شروع ہوئی جہاں ایک ہی ملاقات میں مسٹر ایڈورڈ نے فیصلہ کر لیا کہ وہ فلورین کو اپنی جیون ساتھی بنائیں گے مسٹر ہییل جو پیشے سے ایک انجینئر تھے ان کے رشتے کو فلورین کے گھر والوں نے مسترد کردیا تھا کیونکہ، شادی کے تین ماہ بعد ہی فلورین ایک کار حادثے میں اپنا شوہر کھو چکی تھیں اور خود بھی چھ ماہ تک ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد گھر لوٹی تھیں۔
ادھر مسٹر ہییل نے فلورین کے والد سے وعدہ کیا کہ چاہے فلورین کتنی ہی کمزور اور بیمار ہے وہ اسے ساری زندگی اپنی بانہوں کے مضبوط حصار میں سنبھال کر رکھیں گے ۔
فلورین اور ایڈورڈ کی شادی 12 مئی 1953 میں ہوئی انھوں نے بیٹاویا میں گھر بنایا اور اس گھر کو ان کی بیٹی رینی اور بیٹا رکی نے مکمل کر دیا تھا۔
فلورین سے مسٹر ہییل کی محبت کا عالم یہ تھا کہ انھیں فلورین کے لباس سے لے کر ہیراسٹائل تک کا خیال رہتا تھا وہ سخت سردی میں ہرصبح فلورین کے جاگنے سے پہلے ان کی گاڑی گرم کرتے ان کے لیے ڈرائیو وے سے برف ہٹاتے اور رات میں گیارہ بجے مسز ہییل کے کام سے چھٹی کے وقت پارکنگ میں انتظار کرتے۔
شدید بیمار ہونے کے باوجود انھیں ہر روز فلورین کے ساتھ ریستوران اور کیفے میں جانا اچھا لگتا تھا وہ جب بھی بازار سے شاپنگ کرنے جاتے تو فلورین کے لیے پھولوں کا گلدستہ اور کچھ میٹھا ضرور لاتے تھے ۔
رینی کہتی ہیں کہ ان کی والدہ کو لوگ چیھڑنے کے لیے کہتے تھے کہ وہ ایڈورڈ کے بغیر تنہا کیسے جی سکیں گی ؟
اس بات کے جواب میں مسز ہییل کہتی تھیں کہ ’’مسٹر ہییل مجھ سے پہلے دنیا چھوڑنا کبھی بھی گوارا نہیں کرے گا وہ مجھے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ہے۔‘‘
فلورین اور ایڈورڈ کی مشترکہ آخری رسومات 13 فروری کی شام 'سینٹ میری کیتھولک چرچ ' میں انجام پائیں جہاں ان کے رشتے داروں کے علاوہ اسپتال کے اسٹاف سمیت اہل محلہ کی بڑی تعداد نے سچا پیار کرنے والے جوڑے کو الوداع کہا ۔
فلورین اور ایڈورڈ کی شادی کو چھ عشرے گزرچکے تھےاس کےباوجود انھیں ایک دوسرے سے الگ کرنا ممکن نہیں تھا اسی لیے شاید موت نے بھی انھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا۔
'اورلینز حب' کے ایک بلاگ کے مطابق،فلورین کی بیٹی رینی نے اپنے والدین کی محبت کی انوکھی داستان کو بیان کیا ہے جو سمجھتی ہیں کہ ان کے والدین پیار کی ایک ایسی کہانی رقم کر گئے ہیں جسے مدتوں یاد کیا جا ئے گا ۔
7 فروری کے روز فلورین ہییل نیویارک کے ایک اسپتال میں فوت ہوگئیں مگر دنیا سے جاتے ہوئے ان کا ہاتھ ہمیشہ کی طرح اپنے خاوند کے مضبوط ہاتھوں میں تھا جو خود موت سےچند گھنٹوں کے فاصلے پر تھے۔
مسٹر ایڈورڈ ہییل ایک جینٹلمین کی طرح فلورین کے جانے کا انتظارکررہے تھے تاکہ ، زندگی بھر ساتھ نبھانے کے وعدے کو پورا کرسکیں۔ فلورین کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی اگلے روز مسٹرہییل نے بھی ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں ۔
کہا جاتا ہے کہ محبت میں بہت طاقت ہوتی ہے شاید یہی طاقت 83 سالہ مسٹر ہییل کو شدید بیماری کے باوجود حوصلہ دیتی رہی وہ پچھلے پانچ برسوں سے گردے کی خرابی کے باعث ڈائیلسز پر تھے لیکن ایک ماہ قبل انھیں دل کا دورہ پڑا جس کے بعد انھیں نیو یارک کے 'روچیسٹر اسپتال' میں داخل کرایا گیا جہاں ان کے گردوں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا۔ مسٹر ہییل کی حالت نازک تھی ڈاکٹروں نے انھیں چند دنوں کا مہمان بتایا تھا ۔
4 فروری کو اچانک 82 سالہ فلورین ہییل ہارٹ فیل ہونے کی وجہ سے بیٹاویا کے 'یونائیٹیڈ میتھوڈسٹ اسپتال' میں داخل کرائی گئیں جو روچسٹر اسپتال سے 35 میل کی دوری پر واقع تھا ۔ فلورین کی حالت زیادہ بگڑتی گئی اورڈاکٹروں نے انھیں جواب دے دیا ۔
رینی کہتی ہے کہ ان کے لیے بہت مشکل تھا کہ وہ اپنے مرتے ہوئے والدین میں سے کس کے سرہانے جا کر روئیں ۔
لیکن قدرت نے ان کی یہ مشکل بھی آسان کر دی۔ 6 فروری رات کے آدھے پہر میں اچانک ان کے والد ہوش میں آگئے انھیں اب تک فلورین کے بارے میں کچھ نہیں پتا تھا مگر ہوش میں آتے ہی انھوں نے اپنی بیوی سے ملنے کی فرمائش کی کیونکہ وہ آخری وقت میں فلورین کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔
رینی ہرش کہ مطابق وہ رات بھر اپنے والد کو یونائیٹیڈ میتھوڈیسٹ اسپتال میں منتقل کرنے کے لیے دونوں اسپتالوں کو راضی کرتی رہیں کیونکہ مسٹر ہییل کا اس حالت میں سفر کرنا ناممکن تھا ادھر مسز ہییل کے اسپتال والے ایک مرتے ہوئے مریض کو اسپتال میں داخل کرنے پر راضی نہیں تھے تاہم کچھ سوشل ورکرز کی مدد سے اس معاملے کو حل کر لیا گیا ۔
ایمبولینس میں سفر کرنے سے پہلے مسٹر ہییل کی طبعیت میں سدھار آنا ڈاکٹروں کے لیےغیر معمولی بات تھی یہ ان کی مضبوط قوت ارادی تھی جس کی بدولت مسٹر ہییل پینتیس میل کا سفر کر کے اپنی اہلیہ کے آخری دیدار کے لیے ان کے بیڈ کے سرہانے تک جا پہنچے۔ اسپتال والوں نے میاں بیوی کو ملانے کے لیے ایک ہی کمرے میں ان کے بیڈز ایک ساتھ جوڑ دئیے تھے تاکہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے دنیا سے رخصت ہوسکیں۔
7فروری صبح کےساڑھے دس بجے فلورین نے ہمیشہ کے لیے آنکھ بند کر لیں تو 36 گھنٹے بعد مسٹر ہییل بھی دنیا سے رخصت ہو گئے ۔
فلورین اور مسٹر ایڈورڈ کی بے مثال محبت کی کہانی ساٹھ برس قبل ایک پارٹی سے شروع ہوئی جہاں ایک ہی ملاقات میں مسٹر ایڈورڈ نے فیصلہ کر لیا کہ وہ فلورین کو اپنی جیون ساتھی بنائیں گے مسٹر ہییل جو پیشے سے ایک انجینئر تھے ان کے رشتے کو فلورین کے گھر والوں نے مسترد کردیا تھا کیونکہ، شادی کے تین ماہ بعد ہی فلورین ایک کار حادثے میں اپنا شوہر کھو چکی تھیں اور خود بھی چھ ماہ تک ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد گھر لوٹی تھیں۔
ادھر مسٹر ہییل نے فلورین کے والد سے وعدہ کیا کہ چاہے فلورین کتنی ہی کمزور اور بیمار ہے وہ اسے ساری زندگی اپنی بانہوں کے مضبوط حصار میں سنبھال کر رکھیں گے ۔
فلورین اور ایڈورڈ کی شادی 12 مئی 1953 میں ہوئی انھوں نے بیٹاویا میں گھر بنایا اور اس گھر کو ان کی بیٹی رینی اور بیٹا رکی نے مکمل کر دیا تھا۔
فلورین سے مسٹر ہییل کی محبت کا عالم یہ تھا کہ انھیں فلورین کے لباس سے لے کر ہیراسٹائل تک کا خیال رہتا تھا وہ سخت سردی میں ہرصبح فلورین کے جاگنے سے پہلے ان کی گاڑی گرم کرتے ان کے لیے ڈرائیو وے سے برف ہٹاتے اور رات میں گیارہ بجے مسز ہییل کے کام سے چھٹی کے وقت پارکنگ میں انتظار کرتے۔
شدید بیمار ہونے کے باوجود انھیں ہر روز فلورین کے ساتھ ریستوران اور کیفے میں جانا اچھا لگتا تھا وہ جب بھی بازار سے شاپنگ کرنے جاتے تو فلورین کے لیے پھولوں کا گلدستہ اور کچھ میٹھا ضرور لاتے تھے ۔
رینی کہتی ہیں کہ ان کی والدہ کو لوگ چیھڑنے کے لیے کہتے تھے کہ وہ ایڈورڈ کے بغیر تنہا کیسے جی سکیں گی ؟
اس بات کے جواب میں مسز ہییل کہتی تھیں کہ ’’مسٹر ہییل مجھ سے پہلے دنیا چھوڑنا کبھی بھی گوارا نہیں کرے گا وہ مجھے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ہے۔‘‘
فلورین اور ایڈورڈ کی مشترکہ آخری رسومات 13 فروری کی شام 'سینٹ میری کیتھولک چرچ ' میں انجام پائیں جہاں ان کے رشتے داروں کے علاوہ اسپتال کے اسٹاف سمیت اہل محلہ کی بڑی تعداد نے سچا پیار کرنے والے جوڑے کو الوداع کہا ۔