وائٹ ہاؤس نے ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے 47 سینیٹروں پر الزام عائد کیا کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ان قانون سازوں نے ایران کو متنبہ کیا تھا کہ صدر براک اوباما کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والا کوئی بھی معاہدہ صرف صدر اوباما کی مدتِ اقتدار یعنی 2017 تک قائم رہے گا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے صحافیوں سے کہا کہ ان سینیٹروں کا ایران کو بھیجا جانے والا خط ایران کے ساتھ حساس مذاکرات کو خراب کرنے کی ایک کوشش ہے۔ امریکہ اور پانچ دوسری عالمی طاقتیں ایران کے جوہری معاملے پر 31 مارچ تک ایک بنیادی معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
آرکنساس سے نومنتخب ریپبلیکن سینیٹر ٹام کاٹن نے یہ مراسلہ لکھنے کا اہتمام کیا اور سینیٹ میں موجود ریپبلیکن پارٹی کے تمام ممبران نے اس پر دستخط کیے۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ ایران ’’شاید امریکی آئینی نظام کو پوری طرح نہیں سمجھتا‘‘ اور یہ کہ کوئی بھی اقدام جسے کانگریس کی منظوری حاصل نہ ہو محض انتظامی حکم نامے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس خط میں کہا گیا کہ ’’اگلا صدر ایسے کسی بھی صدارتی حکم نامے کو یک جنبشِ قلم سے کالعدم قرار دے سکتا ہے۔‘‘
صدر اوباما نے اس خط پر فوری ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بات میں ستم ظریفی کا کچھ پہلو ہے کہ کانگریس کے کچھ ممبران ایران میں سخت گیر نظریات رکھنے والے طبقے کے مقاصد کو اپنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک غیر معمولی اتحاد ہو گا۔ صدر نے کہا کہ ا س وقت ان کی انتظامیہ کی توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ آیا امریکہ چھ ممالک کے ایران کے ساتھ سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے مذاکرات میں کسی معاہدے پر پہنچ پائے گا یا نہیں۔
اوباما نے کہا کہ اگر کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے تو انہیں اعتماد ہے کہ وہ امریکی عوام سے اس کے لیے حمایت حاصل کرنے اور اس پر عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے بھی اس خط کا فوری جواب دیا اور کہا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور یہ پروپیگنڈہ پھیلانے کی ایک چال ہے۔ انہوں نے کہا کہ حیرت ہے کہ امریکی کانگریس کے کچھ ممبران اپنے ہی صدر اور انتظامیہ کے خلاف ایک غیر ملک کی قیادت کو مراسلہ تحریر کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔
ایرانی وزیرِ خارجہ نے سینیٹرز کے خط میں استعمال کی گئی زبان سے ملتی جلتی زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’’شاید اس خط کے مصنفین یہ نہیں سمجھتے کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق حکومتیں اپنی ریاستوں کی مکمل طور پر نمائندہ ہوتی ہیں، خارجہ امور چلانے کی ذمہ دار ہوتی ہیں اور دوسری ریاستوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر عملدرآمد کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔‘‘
ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے کئی سینیٹرز نے کہا کہ وہ ریپبلیکن سینیٹروں کے خط سے نہایت حیران ہوئے ہیں۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ ہیری ریڈ نے کہا کہ یہ خط صدر کو شرمندہ کرنے کے لیے بھیجا گیا جبکہ ریپبلیکن سینیٹرز کا کہنا ہے کہ کانگریس ایران کے ساتھ جوہری معاملے پر حتمی معاہدے میں اپنی رائے پیش کرنے کا حق استعمال کرنا چاہتی ہے۔