آپ شاید قدرتی طور پر رات میں جاگنے کے عادی یا صبح سویرے بیدار ہونے والے شخص ہو سکتے ہیں لیکن، ایک بات تو طے ہے کہ آپ اپنی ان عادتوں کے ساتھ جنگ نہیں کر سکتے ہیں اور اب سائنس دانوں نے بھی اس سچائی کو تسلیم کر لیا ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ شاید یہ سب کچھ ہمارے ڈی این اے میں پوشیدہ 'جینیٹک کوڈ' میں لکھا ہوا ہے۔
نئی تحقیق میں ماہرین کہتے ہیں کہ سونے کے لیے رات یا دن کو ترجیح دینے والے افراد کے پاس شاید ایک سچا حیاتیاتی بہانہ موجود ہو سکتا ہے کیونکہ صبح یا رات کے لیے ہماری اندرونی ترجیحات کو ہماری 'سرکیڈین ردھم' کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے۔
محققین کے مطابق انسانی جسم کی حیرت انگیز حیاتیاتی گھڑی سرکیڈین ردھم ہر زندہ حیاتیات میں ایک عالمگیر خصوصیت ہے، جو رات میں ہمیں نیند کی طرف مائل کرتی ہے اور صبح کی روشنی ہونے پر بیدار کراتی ہے بلکہ تقریباً ہر حیاتیاتی عمل پر اثر انداز ہوتی ہے۔
'نیچر کمیونیکشن' نامی سائنسی جریدے کی فروری کی اشاعت میں شامل تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کچھ مخلوقات جن میں انسان بھی شامل ہیں ان کے لیے حیاتیاتی گھڑی میں دن یا رات کے حوالے سے ایک قدرتی ترجیح موجود ہے۔
محققین نے کہا کہ پچھلے مطالعوں میں ایسی جینز کا پتا چلا ہے، جن کا انسانی حیاتیاتی گھڑی پر غیر معین اثر و رسوخ تھا تاہم اس بارے سائنس دان زیادہ نہیں جانتے تھے کہ ہماری جینیاتی کوڈ کے کونسے حصے اس میں ملوث ہیں۔
کیلیفورنیا حیاتی ٹیکنالوجی کمپنی کی طرف سے منعقدہ مطالعے کی قیادت ڈاکٹر ڈیوڈ ہائنڈس نے کی ہے، جنھوں نے تقریباً90 ہزار افراد کے جینوم ( جینز کا مجموعہ) کی جانچ پڑتال کی ہے۔
ماہرین کی ٹیم نے نتائج کا موازنہ ویب کے سروے کے جوابات کے ساتھ کیا، جس میں شرکاء سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ دن میں فعال ہوتے ہیں یا رات میں خود کو زیادہ چست محسوس کرتے ہیں۔
ماہرین کو پتا چلا کہ انسانی جینوم کے 15 علاقے اور صبح کے لیے ایک فرد کی ترجیح کے درمیان تعلق کے اعدادوشمار مضبوط تھے۔
نتائج سے ظاہر ہوا کہ جینوم کے ان 15 حالتوں میں سے 7 حیاتیاتی گھڑی کو منعظم کرنے والی جینز سے قریب تھیں۔
محقق ڈاکٹر ڈیوڈ ہائنڈس نے کہا ہمیں پتا چلا ہے کہ حیاتیاتی گھڑی سرکیڈین ردھم کو کنٹرول کرنے کا میکانزم ان نیورانز میں پایا جاتا ہے، جو دماغ کے ایک علاقے 'ہائپو تھالمس' کے ایک حصے'سپر اچیزمیٹک نیوکلیائی' میں شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے ایک ہزار سے زائد مختلف خصلتوں میں جینیات کی تفتیش کی ہے اور نیند کے طرز عمل کو دیکھا ہے، جن میں سے صبح سویرے بیدار ہونا سب سے زیادہ دلچسپ جینیات رکھنے کے لیے نمایاں تھا۔
تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ صبح سویرے اٹھنے والے افراد میں نمایاں طور نیند کی بیماریوں کا امکان کم تھا۔ انھیں رات آٹھ گھنٹے سے زیادہ نیند کی ضرورت تھی جبکہ رات میں جاگنے والوں کے مقابلے ان میں ڈپریشن کا امکان 56 فیصد کم تھا۔
عمر اور جنس کے عوامل کے اثرات کو شامل کرنے کے بعد ماہرین کو پتا چلا کہ صبح سویرے بیدار ہونے والے افراد صحت مند باڈی ماس انڈیکس (معیاری وزن کا پیمانہ) کےحامل تھے۔
تحقیق کے نتائج کے مطابق رات میں جاگنے کی عادت نمایاں طور پر صنف کے ساتھ وابستہ تھی، شرکاء میں سے 40 فیصد مرد اور تقریباً 49 فیصد خواتین کو صبح سویرے بیدار ہونے کی عادت تھی۔
صبح بیدار ہونے کی ترجیح عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے، جیسا کہ شرکاء میں سے 30 برس سے کم عمر 24 فیصد نوجوان صبح سویرے جاگنا پسند کرتے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں 60 سال سے زائد عمر کے 63 فیصد بالغان کو صبح سویرے بیدار ہونے کی عادت تھی۔
ایک پچھلے مطالعے نے ایسے دستاویزی ثبوت ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ جینز دن یا رات کی سرگرمی کے لیے فروٹ فلائی (مکھی) کی ترجیح کو متاثر کرتی ہیں۔