رسائی کے لنکس

ٹونی بلیئر عراق جنگ میں شمولیت کے فیصلے پر "پشیمان"


سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر
سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر

سابق برطانوی وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ کم از کم عراق جنگ کا یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ آج وہاں ایک منتخب حکومت ہے جسے عالمی برادری عراقی عوام کی جائز نمائندہ تسلیم کرتی ہے۔

برطانیہ کے سابق وزیرِاعظم ٹونی بلیئر نے 13 سال قبل عراق جنگ میں برطانیہ کی شمولیت سے متعلق اپنے فیصلے پر معذرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اس معاملے پر پارلیمان کو گمراہ نہیں کیا تھا۔

بدھ کو لندن میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق برطانوی وزیرِاعظم نے کہا کہ ان کی حکومت نے 2003ء میں امریکہ کی زیرِ قیادت عراق جنگ میں شمولیت کا فیصلہ پوری"نیک نیتی" سے کیا تھا۔

ٹونی بلیئر نے کہا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی سے متعلق انٹیلی جنس معلومات میں دانستہ کوئی گڑبڑ نہیں کی گئی تھی۔

سابق برطانوی وزیرِاعظم نے یہ پریس کانفرنس عراق جنگ میں برطانیہ کی شمولیت سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد کی جس میں امریکہ کی زیرِ قیادت عراق میں مداخلت کو غیر ضروری قرار دیتےہوئے کہا گیا ہے کہ برطانیہ اور مغربی طاقتوں کو اس وقت کے عراقی صدر صدام حسین سے کوئی فوری خطرہ لاحق نہیں تھا۔

بدھ کو لندن میں تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ اور سابق برطانوی اعلیٰ سرکاری عہدیدار جان چلکوٹ نے کمیشن کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2003ء میں عراق میں تخفیفِ اسلحہ کے لیے بین الاقوامی برادری کی جانب سے تمام تر کوششیں بروئے کار آنے سے قبل ہی جنگ میں کودنے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا جو بلاجواز تھا۔

کمیشن نے عراق میں برطانوی فوج کی کارروائیوں پر اس وقت کے سیاست دانوں، انٹیلی جنس حکام، سفارت کاروں اور فوجی جنرلوں کو موردِ الزام ٹہراتے ہوئے کہا ہے کہ عراق میں فوجی مداخلت کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد میں کئی سنگین غلطیاں تھیں جس کا خمیازہ عراقی عوام کو بھگتنا پڑا۔

بدھ کو وسطی لندن میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کمیشن کی رپورٹ پر اپنے ردِ عمل میں سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر نے کہا کہ وہ عراق جنگ میں برطانیہ کی شمولیت کے فیصلے پر پہلے سےکہیں زیادہ "دکھی، پشیمان اور معافی کے طلب گار" ہیں۔

لیکن ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کی رپورٹ نے ان کے اس موقف کو درست ثابت کیا ہے کہ جنگ میں شمولیت کے معاملے پر پارلیمان اور کابینہ کو گمراہ کن معلومات فراہم نہیں کی گئی تھیں اور نہ ہی اس معاملے پر کوئی جھوٹ بولا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ برطانیہ کی جنگ میں شمولیت کا فیصلہ ان کی زندگی کے چند مشکل ترین فیصلوں میں سے تھا لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اس جنگ میں اپنی جانیں دینے اور زخمی ہونے والے برطانویوں کی قربانی رائیگاں نہیں گئی۔

ٹونی بلیئر کا کہنا تھا کہ وہ جانتے تھے کہ عراق جنگ میں برطانیہ کی شمولیت کے فیصلے کو عوامی حمایت حاصل نہیں تھی لیکن انہوں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کیوں کہ ان کے خیال میں یہی صحیح راستہ تھا اور اگر جنگ نہ چھیڑی جاتی تو "ہمیں اور پوری دنیا کو آگے چل کر اس کی کہیں زیادہ بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی۔"

سابق برطانوی وزیرِاعظم نے اس تاثر کو رد کیا کہ عراق جنگ کے نتیجے میں دنیا میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے برعکس انہوں نے اپنے اس دعوے کو دہرایا کہ اگر 2003ء کے بعد بھی صدام حسین کو اقتدار میں رہنے کا موقع دیا جاتا تو وہ ضرور دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیتے۔

انہوں نے کہا کہ کم از کم عراق جنگ کا یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ آج وہاں ایک منتخب حکومت ہے جسے عالمی برادری عراقی عوام کی جائز نمائندہ تسلیم کرتی ہے۔

امریکہ نے 2003ء میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگا کر عراق پر حملہ کیا تھا جو بعد میں غلط ثابت ہوا تھا۔

اس جنگ کے معاملے پر عالمی برادری واضح طور پر تقسیم تھی اور دنیا کے کئی بڑے ملکوں نے عراق پر حملے کی مخالفت کی تھی۔

تاہم برطانیہ کی اس وقت کی حکومت نے اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا تھا اور برطانیہ کے اس وقت کے وزیرِاعظم ٹونی بلیئر عراق پر حملے کے ایک بڑے وکیل تھے جنہیں اپنے موقف پر اندرون و بیرون ملک کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

صدام حکومت کے خاتمے کے بعد عراق بد ترین تشدد اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا شکار ہوگیا تھا جو حملے کے 13 سال بعد بھی بدستور جاری ہے۔ یہ کشیدگی اب تک ہزاروں افراد کی جانیں لے چکی ہے۔

XS
SM
MD
LG