انسانی حقوق اور فراہمی انصاف کی ایک سرگرم پاکستانی تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ ذہنی مرض میں مبتلا اس مجرم کی سزائے موت پر عملدرآمد روکا جائے جسے تختہ دار پر لٹکانے کے لیے عدالت کا حکم نامہ جاری ہو چکا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ 50 سالہ مجرم امداد علی کو 2002ء میں ایک مذہبی شخصیت کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
"جسٹس پراجیکٹ پاکستان" نامی تنظیم کا کہنا ہے کہ امداد علی شدید ذہنی مرض میں مبتلا ہے جس کا برسوں سے کوئی مناسب علاج بھی نہیں ہوا اور ایسے مجرم کو پھانسی دینا بذات خود ایک سنگین جرم بن جائے گا کیونکہ معذوروں کو عزت و وقار دینے کے ضامن بین الاقوامی میثاق پر پاکستان نے بھی دستخط کر رکھے ہیں۔
تنظیم کی عہدیدار سارہ بلال نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ امداد علی کو لاحق مرض موروثی ہے جس کے بارے میں اس وقت معلوم ہوا جب ماتحت عدالت کی طرف سے اسے سزائے موت سنا کر وہاڑی جیل منتقل کیا گیا اور وہاں اس کی حرکات و سکنات سے پولیس کو اس بات کا اندازہ ہوا۔
"اس کے وہاں بھرپور طبی معائنے ہوئے آٹھ نو سالوں میں اور ہر میڈیکل بورڈ نے ہر ڈاکٹر نے یہی کہا کہ یہ نہایت بیمار ہے، اسے چھوڑ دینا چاہیے اس کو کوئی علاج نہیں ہے۔"
گزشتہ سال بھی سزائے موت کے ایک معذور قیدی عبدالباسط کی پھانسی انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اس جانب توجہ دلائے جانے کے بعد ملتوی کی گئی تھی کہ مجرم دوران قید تپ دق کے مرض کا شکار ہوا اور مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے اس کے جسم کا نچلا دھڑ مفلوج ہو چکا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایسا مجرم جو کہ تختہ دار پر کھڑا نہ ہو سکتا ہو اس کے بارے میں پھانسی سے متعلق جیل کے قواعد و ضوابط میں بھی کچھ واضح طور پر تحریر نہیں ہے۔
سارہ بلال کہتی ہیں کہ ذہنی معذور مجرموں کے بارے میں وکلا کو آگاہی نہ ہونے کے باعث وہ اس معاملے کو عدالت میں صحیح طور پر پیش نہیں کر پاتے جس سے مقدمات کی سماعت سپریم کورٹ تک ایسے ہی چلتی رہتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس بارے میں خاص طور پر فوجداری نظام عدل کے طریقہ کار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں اس بارے میں گنجائش موجود ہے۔
"اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے فوجداری نظام میں یہ گنجائش ہونی چاہیے کہ ثبوت پہلے پیش نہیں ہوئے اور اب ہمارے سامنے آگئے ہیں۔۔۔امداد علی کے بارے میں سپریم کورٹ تک یہ ثبوت سامنے نہیں آئے کہ اسے ذہنی مرض ہے مگر اب بغیر شک و شبہ کے ہمارے سامنے یہ ثبوت ہیں حکومت کے اپنے اور جیل کے اپنے ثبوت ہیں کہ یہ کتنا بیمار ہے، تو اگر یہ ثبوت سامنے آیا ہے تو اس کا کیا کرنا ہے۔۔۔اسی طرح آپ ناانصافی کو روک سکتے ہیں۔"
پاکستان نے دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر مہلک دہشت گرد حملے کے بعد ملک میں تقریباً چھ سال سے زائد عرصے سے پھانسیوں پر عائد پابندی ختم کر دی تھی جس کے بعد سے اب تک لگ بھگ 400 مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔
انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے پاکستانی حکومت سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اس سزا کو ختم کرے اور پھانسیوں پر پابندی عائد کرے۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش مخصوص حالات میں قانون کے مطابق دی گئی سزاؤں پر عملدرآمد ناگزیر ہے۔