آپ کو یہ تو معلوم ہوگا ہی کہ چاند پر پہلا انسانی قدم امریکی خلاباز نیل آمسٹرانگ نے رکھا تھا۔ شاید یہ بھی آپ کو یاد ہو کہ خلا میں جانے والے پہلے انسان کا نام یوری گاگرین تھا جنہوں نے 1961 میں 108 منٹ خلا میں گزارے تھے۔ لیکن، ان سے بھی پہلے خلا کی یاترا ’لائیکا‘ نے کی تھی۔
لائیکا ایک کتے کا نام ہے۔ وہ کوئی پالتو کتا نہیں تھا اور نہ ہی اس کا تعلق کسی سائنسی لیبارٹری سے تھا، بلکہ وہ ماسکو کے گلی کوچوں میں پھرنے والا ایک آوارہ کتا تھا۔ اسے پکڑ کر خلا میں اس لیے بھیجا گیا تھا کہ اگر وہ بے وزنی کی کیفیت میں راکٹ کے اندر مر کھپ بھی جائے تو کسی کو افسوس نہ ہو۔ کیونکہ کوئی بھی شخص اپنا پالتو کتا ایک خطرناک اور غیر یقینی مشن کے لیے دینے پر آمادہ نہیں تھا۔
سن 1957 میں لائیکا کے پہلے خلائی سفر نے پہلے روسی خلاباز یوری گاگرین کی خلانوردی کا راستہ ہموار کیا اور پھر تو خلا اور كائنات میں گردش کرتی ہوئی دنیاؤں کا خوف جاتا رہا اور اب تو چاند کے لیے مسافر بردار راکٹ بھیجنے کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ تحقیقی مقاصد کے لیے جانوروں کو خلا میں بھیجنے کی ضرورت کم نہیں ہوئی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اب کتے، بلیوں اور بندروں کی بجائے بہت چھوٹے جانداروں کو خلا میں بھیجا رہا ہے جن میں مکھیاں تک شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ چھوٹے جاندار زیادہ مفید معلومات فراہم کرتے ہیں جن سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ خلا میں کون سے جسمانی مسائل پیش آ سکتے ہیں اور چھوٹے جانور خود کو بدلے ہوئے ماحول کے مطابق کس طرح ایڈجسٹ کرتے ہیں۔
یہ کتنی دلچسپ اور عجیب بات ہے کہ چوہے، مختلف قسم کی مکھیاں اور دوسرے حشرت الارض، ہم جن کی جانب دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے، ہمیں مستقبل کی زندگی کے متعلق بہت کچھ سکھا سکتے ہیں۔
انٹرنیشنل سپیس سٹیشن پروگرام کی چیف سائنٹسٹ جولی روبن سن کہتی ہیں کہ پہلے پہل بڑے سائز جانوروں کو اس لیے خلا میں بھیجا گیا تھا کیونکہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کشش ثقل نہ ہونے سے اپنے بچوں کو دودھ پلانے والی مخلوق زندہ نہیں رہ سکے گی۔ اور سچی بات یہ ہے کہ سائنس دانوں کو بھی علم نہیں تھا کہ کشش ثقل کی عدم موجودگی میں زندگی کیسی ہوگی۔ لیکن آج جب ہم خلا میں جانور بھیجتے ہیں تو ہمارے مقاصد طبی نوعیت کی معلومات حاصل کرنا ہوتی ہیں جس کے لیے کتے بلی اور بندر جیسے جانور موزوں نہیں ہیں۔
جولی کہتی ہیں کہ آج کل زمین پر طبی تحقیق کے لیے زیادہ تر مخصوص نسل کے چوہوں، پھلوں کی مکھیوں، مچھلیوں اور اسی نوعیت کے چھوٹے جانداروں کی مدد لی جاتی ہے۔ بعض مخصوص ریسرچ میں ہم نے گھونگھوں کا استعمال بھی کیا ہے۔ مستقبل میں بھی یہ چھوٹے جاندار ہماری ریسرچ میں شامل رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ خلا میں کسی بھی تجرباتی سلسلے میں بھیجے جانے والے خلاباز کو خصوصي تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اور خلا میں بھیجے جانے والے جانور، اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے وہاں جس طرح اپنی عادات تبدیل کرتے ہیں، ان سے خلابازوں کی تربیت میں مدد ملتی ہے۔
مثال کے طور پر جب خلا میں چوہے کو اپنی بے وزنی کا إحساس ہوتا ہے تو وہ کچھ دیر تک بے وزنی کی کیفیت میں لڑھکتا ہے اور پریشان ہوتا ہے۔ لیکن کچھ ہی دیر کے بعد وہ خود کو بدلے ہوئے ماحول کے مطابق ڈھال لیتا ہے اور یہ سیکھ لیتا ہے کہ اسے کس طرح چلنا پھرنا ہے، کس طرح کھانا اور پینا ہے اور سونے کے لیے کیا کرنا ہے۔ جب وہ یہ چیزیں سیکھ لیتا ہے تو پھر وہ کسی پریشانی کے بغیر معمول کے مطابق خلائی ماحول میں رہنے لگتا ہے۔
چوہوں کی طرح مچھلی بھی بہت جلد خود کو بدلے ہوئے حالات کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔
جولی روبن سن کہتی ہیں کہ بے وزنی کی کیفیت سے ہڈیوں اور اعصاب کی بیماریوں کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ چھوٹے سائز کے جانوروں پر خلا میں کیے جانے والے تجربات سے دوہرے مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ خلاباز اپنی صحت کیسے بحال رکھ سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ زمین پر ان بیماریوں کا علاج کس طرح کیا جا سکتا ہے، کیونکہ بڑھاپے میں انسان کو کئی ایسی بیماریاں لگ جاتی ہیں جو خلا میں بے وزنی کی کیفیت میں پیدا ہوتی ہیں۔
چند برسوں سے سائنس دان آٹھ ٹانگوں والے ایک چھوٹے سمندری جانور ’واٹر بیئر‘ پر خلائی سفر کے حوالے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ اس ننھے جانور میں یہ خوبي ہے کہ وہ خلا میں زندہ رہ سکتا ہے، انتہائی زیادہ درجہ حرارت برداشت کر سکتا ہے اور اس پر خلا میں کثرت سے موجود الٹرا وائلٹ ریڈیشن کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ واٹر بیئر کا ماڈل خلائی زندگی میں انسان کی مدد کر سکتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سائنس دان آخر خلائی سفر کے لیے اتنی کوششیں کیوں کر رہے ہیں تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ وہ 2030 تک انسان کو طویل فاصلے پر واقع زمین سے کسی حد تک ملتے جلتے سیارے مریخ پر اتارنا چاہتے ہیں۔ مریخ پر جانا محض مہم جوئی نہیں ہے بلکہ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ بڑھتی ہوئی آلودگی، گلوبل وارمنگ، ممکنہ جوہری جنگ کی تابکاری اور آبادی میں تیزی سے اضافے کے باعث کرہٴ ارض اس صدی کے آخر تک انسانی زندگی کے قابل نہیں رہے گا اور اسے اپنی بقا کے لیے کسی اور سیارے کو اپنا ٹھکانہ بنانا ہوگا۔