علی رانا
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سپریم کورٹ میں الیکشن اصلاحات ایکٹ 2017 چیلنج کر دیا ہے۔
عمران خان کی جانب سے درخواست عوامی مفاد کے آرٹیکل 184 تین کے تحت دائر گئی جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ پانامہ فیصلے کے نتیجے میں نوازشریف کو نہ صرف رکن قومی اسمبلی کے عہدے کے لیے نا اہل کیا گیا بلکہ انہیں مسلم لیگ (ن) کے عہدے سے بھی دست بردار ہوا پڑا۔ تاہم نوازشریف کو (ن) لیگ میں عہدہ دلوانے کے لیے الیکشن ایکٹ میں خصوصي ترامیم کی گئیں جو آئین سے متصادم ہیں۔
عمران خان نے درخواست میں موقف اپنایا کہ بطور رکن اسمبلی نا اہل ہونے والا شخص پارٹی عہدہ نہیں سنبھال سکتا۔
الیکشن ایکٹ 2017 پولیٹیکل پارٹیز آرڈرز 2002 کےخلاف ہے اور الیکشن ایکٹ 2017 میں ہونے والی ترامیم آرٹیکل 204 اور 175 کے خلاف ہیں، لہذا الیکشن ریفارمز ایکٹ کی شقوں 9، 10 اور 203 کو کالعدم قرار دیا جائے۔
عمران خان کی طرف سے یہ درخواست ان کے وکیل بابر اعوان کے ذریعے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کروائی گئی ہے۔
اس سے قبل عمران خان کے ساتھی شیخ رشيد احمد بھی سپریم کورٹ میں اس ایکٹ کو چیلنج کرنے کے لیے درخواست دے چکے ہیں لیکن ان کی درخواست اعتراضات لگا کر واپس کردی گئی تھی جس کے بعد انہوں نے اعتراضات دور کرکے اپنی درخواست کی منظوری اور کیس کی سماعت کے لیے درخواست کر رکھی ہے۔
پاکستان کی پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 منظور کیا تھا جس کے تحت عدالت سے نا اہل شخص بھی پارٹی کی صدارت سنبھال سکتا ہے۔
اس قانون کے ذریعے ہی سابق وزیراعظم نواز شریف ایک مرتبہ پھر پاکستان مسلم لیگ(ن) کی صدارت سنبھال چکے ہیں۔
مسلم لیگ نون کا موقف ہے کہ نااہلی کی شق سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے سیاسی مخالفین کو عملی سیاست سے باہر رکھنے کے لیے آئین میں شامل کرائی تھی۔