پاکستان میں رواں ماہ ہونے والے سینیٹ انتخابات نے سندھ کی کئی اہم شخصيات کو گمنامی سے شہرت کی دنیا میں قدم رکھنے کا موقع دیا ہے ۔ خاص کر تھر پارکر کی ہندوبرادی سے تعلق رکھنے والی کرشنا کوہلی اور کراچی کے انور لال ڈین۔
انور لال ڈین سندھ سے منتخب ہونے والے تاریخ کے پہلے ایسے سینیٹر ہیں جن کا تعلق کرسچین یا مسیحی برادری سے ہے ۔ وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر 113ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ۔ بہت سادہ مزاج، ملنسار اور پیشے کے اعتبار سے خود کو ’مزدورکا بیٹا ‘ کہنے والے عام آدمی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے ایک خصوصي ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ وہ کراچی صدر کے علاقے میں ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں رہتے ہیں ۔قسطوں میں خریدی گئی ایک موٹر سائیکل کے مالک ہیں اور جس دن انہیں سینیٹر منتخب کیا گیا اس دن صبح بھی انہوں نے معمول کے مطابق اسی موٹر سائیکل پر اپنے بچوں کو اسکول پہنچایا تھا۔
وہ چھ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے باپ ہیں۔ ایک بیٹی کراچی یونیورسٹی کی گریجوایٹ ہے جبکہ بیٹا صدر کے ہی ایک مشنری اسکول میں زیر تعلیم ہے۔ ان کے بقول وہ اسی علاقے میں کرائے پر ملنے یا فروخت ہونے والی جائیداد کی’ بروکری ‘کرتے ہیں۔ اسی آمدنی سے انہوں نے اپنی بہنوں کی شادی کی ۔ ان کی پانچ بہنیں اور پانچ بھائی ہیں۔ تمام بہنیں اور بیٹیاں پڑھی لکھی ہیں۔
ابتدا میں وہ ایک فلاحی چرچ کے تحت چلنے والے بچوں کو ٹیکنیکل تعلیم دینے والے ادارے میں ملازمت کرتے تھے لیکن زمانہ تعلیمی سے ہی وہ نظریاتی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے راہنما ذوالفقار علی بھٹو کے بہت بڑے سپورٹر تھے۔
انور لال دسمبر 1956ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے لیکن ساری عمر کراچی میں ہی مقیم ر ہے ۔ انہوں نے سیاسی زندگی کا آغاز نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کرکے کیا۔ بعدازاں1970 کے عشرے میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت سے متاثر ہو کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔
انہوں نے ڈویژنل صدر منارٹی ونگ کے فرائض بھی انجام دیئے اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے خصوصي معاون بھی رہے۔ اس وقت ان کی عمر 62سال ہے جس کا بہت بڑا حصہ وہ پارٹی کی گئی خدمات میں گزار چکے ہیں۔
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو جس وقت پہلی مرتبہ ملک کی وزیراعظم منتخب ہوئیں تو انہوں نے ایڈوائزی کونسل تشکیل دی جس میں خاص طور سے انور لال ڈین کو بھی عہدہ دیا گیا۔ ’بی بی‘ نے ہی انہیں سفر کرنے کے لئے گاڑی کی سہولت فراہم کی ۔
انور لال ڈین نے وی او اے کو بتایا ’ میں تو مزدور کا بیٹا ہوں ۔ خود ہی ایک موٹر سائیکل پر بچوں کو اسکول چھوڑنے جاتا تھا جو قسطوں پر لی تھی ، اس کی قسطیں اب بھی باقی ہیں مگر وہ لوگ اچھے ہیں ۔ادائیگی میں کبھی دیر سویر ہوبھی جائے تو تنگ نہیں کرتے۔ یہی حال مالک مکان کا وہ بھی ہے، کبھی تنگ نہیں کرتا ۔جانتا ہے میں بچوں کو چھوڑ کر اور کہاں جاؤ ں گا ۔ برسوں سے یہاں آباد ہوں۔‘
وی او اے کے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا ’عام آدمی کی حیثیت سے بھی مطمئن تھا اور سینیٹر بننے کے بعد بھی یہی حال ہے ۔ بس جس وقت پہلی مرتبہ سینٹ کی عمارت میں داخل ہو رہا تھا تو یہ سوچ کر پھولے نہیں سما رہا تھا کہ اب اپنی کمیونٹی کے لئے ، غریبوں کے لئے کچھ کام کروں گا۔ اپر ہاؤس داخلے کے وقت فخر اور خوشی کا ملا جلا تاثر تھا۔ ‘
آپ کی کمیونٹی سب سے بڑا کیا مسئلہ درپیش ہے؟ اس سوال پر انور لال ڈین کا کہنا تھا’ مسائل تو بچے کی پیدائش کے وقت سے ہی شروع ہو جاتے ہیں ۔ اسے بھی کپڑا، خوراک، دوا اور دیگر چیزیں چاہیئے ہوتی ہیں۔ رہی بات یہ کہ کس مسئلے کو سب سے پہلے اٹھاؤں تو جس مسئلے کی نشاندہی ہوگی اسی کی طرف پہلے توجہ دوں گا۔‘
جس وقت سینیٹر بنائے جانے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری امیدواروں سے انٹرویو کررہے تھے آپ سے کیا سوالات ہوئے؟ ان کا کہنا تھا’ انہوں نے پہلا سوال یہی پوچھا تھا کہ کب سے پارٹی سے وابستہ ہیں اور کیا نظریات ہیں، آگے کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے کہا کہ بھٹو ازم کا سپورٹر ہوں۔ 62سال کی عمر میں سے چار سے زائد عشرے ہو گئے پارٹی سے وابستگی رکھتے ہوئے ۔‘میری بات پر بلاول بھٹو صاحب نےخوشی اور تشکر کا اظہار کیا تھا۔‘
پارٹی قیادت سے انور لال ڈین کے تعلقات کس حد تک رہے ہیں اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انہیں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سب سے زیادہ جس شخصیت سے ملاقاتوں اور تعلقات رکھنے کا شرف ملا وہ بے نظیر بھٹو صاحبہ تھیں جنہیں باقی لوگوں کی طرح وہ بھی عقیدت اور پیار سے آج بھی ’بی بی‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔
انور لال ڈین نے ’ بی بی‘کے دور کی یاد وں کو تازہ کرتے ہوئے وی او اے کو بتایا ’18اکتوبر کو جب بی بی عرصے بعد پاکستان آ رہی تھیں، مجھے بلاول ہاؤس سے ہدایات ملیں کہ انہیں ویلکم کے لئے کیمپ لگایا جائے۔ میں نے پوری کرسچین کمیونٹی کی جانب سے ان کےلئے استقبالی کیمپ لگایا۔ اس موقع پر بھی میری ان سے ملاقات طے تھی جبکہ اس سے پہلے اور بعد میں بھی میں ان سے گاہے بگائے ملاکرتا تھا۔ یہاں تک کہ جس مہینے ان کی شہادت ہوئی یعنی دسمبر 2007میں تب میں ان سے کچھ ہی روز پہلے ملا تھا۔ اس آخری ملاقات میں ، میں نے انہیں کرسمس کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی جس پر انہوں نے کہا کہ میں اسلام آباد کے دورے پر ہوں گی لیکن واپسی پر ان کی ملاقات ضرور ہوگی لیکن قسمت نے اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ ‘
انہوں نے مزید بتایا’ بی بی کو کرسچین کمیونٹی سے بہت لگاؤ تھا ۔ہر خوشی اور غم کے موقع پر وہ ہمیں یاد رکھتی تھیں۔ مجھے یا د آیا کہ اعظم بستی کا ایک رہائشی تھا مشتاق مسیحی۔ اس پر ان دنوں نے سی آئی اے سینیٹر میں تشدد ہوا تو بی بی اچانک اعظم بستی میں واقع ان کے گھر گئیں ۔ مشتاق مسیحی کے گھر والوں کو تسلی دی کہ وہ گھبرائیں نہ، وہ ان کے ساتھ ہیں۔ پھر پنجاب میں ہماری کمیونٹی کے ساتھ ایک حادثہ ہوا تو اس تو بھی وہ ہمارے ساتھ کھڑی رہیں ۔ ‘
پارٹی کے معاون چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری سے جڑے ایک واقعے کو شیئر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ مجھے یاد ہے آصف علی زرداری صاحب پر جب تھانے میں حملہ ہوا اور وہ آغاخان اسپتال میں داخل تھے تو میں نے ان کی صحت کے لئے ایک دعائیہ پروگرام رکھا تھا جس میں پادری قادر مسیح بھی آئے تھے جبکہ صحت یابی کے بعد جب میں آصف علی زرداری صاحب سے ملنے گیا تو کرسمس کی تقریب میں شرکت کی ان سے درخواست کی۔ میں کرسمس کیک ان سے کٹوانا چاہتا تھا۔‘
انور لال ڈین کہتے ہیں کہ ’میری درخواست پر آصف علی زرداری صاحب نے کہا کہ کیوں نہ تقریب بلاول ہاؤس میں ہی رکھی جائے ۔ اس پر میں نے خوشی کا اظہار کیا اور مجھ سے پوچھا کہ کتنے کرسچین ہوں گے ۔میں نے کہا کہ جتنی گنجائش ہوگئی۔ کہنے لگےلیکن اس دن صرف کرسچین کو آنے کی اجازت ہوگی۔ اس وقت سیکیورٹی پر بلال شیخ تعینات تھے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ شریف آدمی ہے ،یہ بھی اس دن گیٹ پر بیٹھے گا آپ بھی بیٹھیں ، اس دن آپ نے سب سے یہی کہنا ہے کہ صاحب مصروف ہیں، آج صرف کرسچینز سے ملیں گے ۔آج کا سارا دن میں کرسچین برادی کے ساتھ گزاروں گا، کسی اور سے نہیں ملوں گا۔ یہی ہوا بھی ۔ انہوں نے تمام بچوں، بزرگوں، بچیوں اور خواتین و مردوں کو نہ صرف وقت دیا بلکہ تحفے تحائف بھی دیئے۔ تقریب میں انہوں نے کیک کاٹا تو فریال تالپور بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ انہوں نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ ’آج کی تقریب کا میں مہمان ہوں اور میزبان انور لال ڈین ہیں۔‘ پھر انہی کی طرف سے ڈنر کا اہتمام ہوا جس میں انہوں نے سب کے ساتھ باری باری تصاویر بھی بنوائیں جو آج بھی لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں سجائی ہوئی ہیں۔‘
بلاول بھٹو کے ساتھ اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے انور لال نے کہا ’بلاول بھٹو صاحب جلسے میں بھی اور ذاتی ملاقاتوں میں بھی کئی بار ان خیالات کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ کرسچین کمیونٹی کو ایم پی ایز، ایم این ایزیہاں تک کہ وزیراعظم بھی دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ انہوں نے مجھ جیسے عام سے ورکر کو سینیٹ میں سیٹ دےکر اس کا ثبوت بھی دے دیا ہے۔ ‘
سینیٹر بننے کے بعد میں نے ان کا شکریہ ادا کرنے کے لئے وقت مانگا تو ان کا کہنا تھا کہ’ کس چیز کا شکریہ ، یہ آپ کا حق ہے ۔ ہم نے آپ کو آپ کا حق دیا ہے۔ آپ موسٹ سینیر ہیں اورآپ کی پارٹی کے لئے بہت طویل جدوجہد ہے۔ ‘
آپ کو ایک دلچسپ بات بتاؤں کہ بھٹو خاندان سے مسیحی برادری بھی اتنا ہی پیار کرتی ہے جتنا وہ ہم سے کرتے ہیں۔ پرویز مسیحی جس نے بھٹو کو پھانسی دی تھی ، وہ سرکاری حکم تو بجالایا لیکن اس غم میں اس نے خود سوزی تک کر ڈالی تھی۔ یہ بات قیادت کو بھی اچھی طرح معلوم تھی کہ پرویز مسیح کو پیپلز پارٹی سے کتنی محبت تھی۔‘