پاکستان کی فوج نے انٹیلی جنس ایجنسی 'آئی ایس آئی' کے سابق سربراہ اسد درانی کو فوج کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر وضاحت کے لیے طلب کیا ہے اور غیر جانبدار حلقوں کے خیال میں اگر سابق لیفٹیننٹ جنرل فوج کو مطمئن نہ کر سکے تو ان کے خلاف انضباطی کارروائی ہو سکتی ہے۔
اسد درانی نے بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے ایک سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت کے ساتھ ایک مشترکہ کتاب تحریر کی تھی جس کے مندرجات سامنے آنے پر پاکستان کے خاص طور پر سیاسی حلقوں میں اس پر شدید تحفظات دیکھنے میں آئے تھے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ 'آئی ایس پی آر' کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر پر بتایا کہ اسد درانی نے اس کتاب میں بہت سے موضوعات کو حقائق سے برعکس تحریر کیا جو کہ فوج کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے، لہذا انھیں پیرکو فوج کے صدر دفتر میں آ کر وضاحت پیش کرنے کا کہا گیا ہے۔
ان کے بقول فوج کا ضابطہ اخلاق تمام حاضر سروس اور سابق فوجیوں پر لاگو ہوتا ہے۔
اس کتاب میں اسد درانی سے منسوب یہ بات بھی سامنے آئی تھی جس میں انھوں نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی خفیہ آپریشن کے بارے میں کہا تھا کہ اس بابت اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پوری طرح سے آگاہ تھے۔
تاہم یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی حکومت اور فوج اس کارروائی کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتی رہی ہے۔
فوج کے ایک سابق لیفٹیننٹ جنرل اور دفاعی امور کے تجزیہ کار امجد شعیب بھی ایک کتاب کے مصنف ہیں۔ ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ اس کتاب میں اسد درانی نے جن واقعات کے بارے میں لکھا ہے وہ فوج کے موقف سے مطابقت نہیں رکھتے اور فوج میں بھرتی کے وقت جو حلف لیا جاتا ہے اس کی پاسداری سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی لازم ہوتی ہے۔
"جو حلف اٹھایا جاتا ہے وہ ختم نہیں ہو جاتا، یہ آپ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اگر آپ نے کوئی کتاب لکھی ہے تو اس کے مسودے کو اپنے ادارے سے کلیئر کروانا ہوتا ہے، درانی نے کوئی راز تو افشا نہیں کیے کیونکہ وہ 25 سال پہلے فوج سے فارغ کر دیے گئے تھے اور اتنی پرانی باتیں اب متعلقہ بھی نہیں ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ انھوں نے فوج کے بعض موقف کو جھٹلایا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کی سزا نسبتاً سخت نہیں ہوتی اور ان کے خیال میں اگر اسد درانی فوج کو مطمئن نہ کر سکے تو ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔
"جوابدہی کی بنیاد پر اس کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سزا تجویز کی جائے گی، کارروائی اس طرح ہو سکتی ہے کہ وہ ابھی بھی پنشنر ہیں حکومت پاکستان سے پینشن لیتے ہیں ان کا تعلق ختم نہیں ہوا، ان کی پینشن بند ہو سکتی ہے۔"
ایک روز قبل سینیٹر رضا ربانی نے ایوان بالا میں بات کرتے ہوئے اس کتاب پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اس طرح کی کوئی مشترکہ کتاب غیر فوجی شخص نے لکھی ہوتی تو اس کے خلاف غداری کے فتوے آنا شروع ہو جاتے اور آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا۔ بعد ازاں چیئرمین سینیٹ نے اس بابت وزیردفاع سے جواب طلب کر لیا تھا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف جو کہ حالیہ دنوں میں فوج کے سابق عہدیداروں کی طرف انگشت نمائی کرتے آ رہے ہیں، نے بھی اس بارے میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔
تاہم تجزیہ کار امجد شعیب کہتے ہیں کہ اسد درانی چونکہ اب ایک عام شہری بھی ہیں لہذا اگر حکومت چاہے تو وہ ان کے خلاف انکوائری کر کے کارروائی کرنے کی مجاز ہے۔