امریکہ کی سپریم کورٹ نے صدر ٹرمپ کے سفری پابندیوں سے متعلق صدارتی حکم نامے کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ یہ فیصلہ چار کے مقابلے میں پانچ سپریم کورٹ کے ججوں نے منگل کے روز دیا جسے چیف جسٹس جان رابرٹ نے لکھا اور چار مزید ججوں نے ان سے اتفاق کیا۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ امریکی امیگریشن قوانین کے تحت صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسی سفری پابندیاں لگا سکتے ہیں۔ حالیہ سفری پابندیوں میں چھ مسلم اکثریتی ممالک کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا اور وینیزویلا کا نام بھی شامل ہے۔ امریکی حکومت کا موقف تھا کہ یہ سات ممالک جانچ پڑتال کے ان معیاروں پر پورا نہیں اترتے جو امریکہ میں داخلے کے لیے ضروری ہیں۔
دسمبر 2015 میں سان برانڈینو میں فائرنگ کے ایک واقعہ میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے ایک جلسے میں مسلمانوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم مختلف حلقوں کی جانب سے شدید نکتہ چینی کے بعد ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کی مراد عارضی سفری پابندی تھی جس کے دوران امریکی عہدے دار حالات سے متعلق صحیح معلومات حاصل کر سکیں۔
بعد ازاں اپنی صدارت کے پہلے ہی مہینے میں انہوں نے ایک صدارتی حکم کے تحت 7 مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر 90 دن کی پابندی لگا دی تھی، جن میں عراق، شام، لیبیا، چاڈ، ایران، یمن اور صومالیہ شامل تھے۔ اس صدارتی حکم کو بہت زیادہ احتجاج اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور کئی امریکی عدالتوں نے بھی اس پر عمل درآمد روک دیا۔ جس کے بعد اس صدارتی حکم میں ترمیم کی گئی اور معمولی تبدیلی سے دو اور صدارتی احکام جاری کئے گئے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے آخری حکم نامے میں عراق کو اس فہرست سے نکال کر وینیزویلا اور شمالی کوریا کو اس فہرست میں شامل کر لیا گیا تھا۔
تاہم اس حکم نامے کے خلاف احتجاج اور تنقید جاری رہی اور اس کے خلاف اپیلیں مختلف عدالتی مراحل طے کرتی ہوئی سپریم کورٹ تک جا پہنچیں۔
اعلیٰ امریکی عدالت سے صدارتی حکم نامے کی حق میں فیصلہ آنے کے بعد سپریم کورٹ کی عمارت کے مظاہرین اکھٹے ہو گئے اور فیصلے کے خلاف تقاریر اور نعرے بازی کی گئی۔
احتجاج میں شریک زیادہ تر افراد نوجوان نسل سے تعلق رکھتے تھے ۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس فیصلے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ ایرانی امریکیوں کی نیشنل کونسل کی آرگنائزنگ ڈائریکٹر دانا فرورد کہتی ہیں کہ وہ اس فیصلے پر شدید غم و غصے میں ہیں۔ یہ ایک افسوسناک فیصلہ ہے اور اس ملک میں تارکین وطن کو دوسرے درجے کے شہریوں جیسے سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ اس کی توثیق ہے۔
لائرز کمیونٹی فار سول رائٹس میں انٹرنشپ کرنے والی ایانہ جین کہتی ہیں کہ یہ فیصلہ امریکہ میں انسانی حقوق کی صورت حال کے لئے ایک دھچکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مذہب کی آزادی ہمارا بنیادی حق ہے اور ایسا فیصلہ اس کی نفی ہے۔
مسلم ایڈووکیٹس تنظیم کے لیگل ڈائریکٹر جانتھن سمتھ نے کہا کہ اس فیصلے سے متعلقہ ممالک سے تعلق رکھنے والی کمیونٹیز کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا اور ایسا فیصلہ ان لوگوں کے لئے بھی نہایت افسوسناک ہے جو ملک میں ان مذہبی آزادیوں پر یقین رکھتے ہیں جن کی امریکی آئین ضمانت دیتا ہے۔
مظاہرے میں شریک جاش کہتے ہیں کہ ہمیں ان پابندیوں کو مسلم بین ہی کہنا چاہئے نہ کہ جیسا بعض لوگ اسے ٹریول بین کہتے ہیں۔
29 جنوری 2017 کو وائٹ ہاوس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں صدر ٹرمپ نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ان کے صدارتی حکم کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعد میں 5 جون 2017 کو اپنی ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے یہ وضاحت کی تھی کہ لوگ جو بھی کہیں مگر ان سفری پابندیوں کا نام ٹریول بین ہے۔
مظاہرے میں شریک ایک اور شہری کرس کہتے ہیں کہ سفری پابندیوں سے متعلق امریکہ کی تاریخ رہی ہے ۔ اور یہ بھی درست ہے کہ سفری پابندیوں سے متعلق یہ صدارتی حکم نامہ مذہب کا نام استعمال نہیں کرتا مگر یہ خصوصی طور پر مسلم اکثریتی ممالک کو نشانہ بناتا ہے جس کی وجہ سے یہ مذہبی شناخت سے متعلق آئین میں دی گئی ضمانتوں سے متصادم ہے۔
مسلم پبلک افیئرز کونسل سے تعلق رکھنے والی ازابیل ڈاؤل کہتی ہیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ایسے فیصلے کی وجہ سے میں آج امریکی ہونے پر شرمندہ ہوں۔ ایسے فیصلے آئندہ نسلوں کو متاثر کریں گے۔
اس سوال پر کہ نوجوان امریکی کیا لائحہ عمل اختیار کر کے اس صورت حال کو بدل سکتے ہیں، دانا فرورد کا کہنا تھا کہ ابھی بھی سب کچھ ختم نہیں ہوا اور کانگریس ایک بل کے ذریعے ایسی پابندیوں کو ختم کر سکتی ہے۔ اس لئے ہمیں اس فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے اور اپنے نمائندگان تک اپنا غم و غصہ پہنچانا چاہئے۔
ایانہ جین کا کہنا تھا کہ اگرچہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایسے فیصلوں کے بعد بے اختیار ہیں مگر اپنے احتجاج کے ذریعے ہم یہ پیغام ضرور دیتے ہیں کہ ہم ان سے متفق نہیں ہیں اور جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں ووٹ سے اس صورت حال کو بدلنا ہو گا۔
جانتھن سمتھ کہتے ہیں کہ ایسے فیصلے لوگوں کو متحد کرتے ہیں تاکہ وہ یہ بتا سکیں کہ یہ ہماری روایات کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں یہ توقع کرتا ہوں کہ ووٹ کے ذریعے لوگ اس بات کو واضح کر دیں گے کہ صدر کے ایسے اعمال انہیں نا منظور ہیں۔
اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے کوئی نیا عدالتی راستہ استعمال کرنے سے متعلق کرس ناامید نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی نئے قانون کے بغیر ایسی سفری پابندیوں کا خاتمہ ممکن نہیں ،کیونکہ اب عدالتیں اپنا فیصلہ سنا چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی نسل اگرچہ سیاسی عمل میں تلاطم پیدا تو کر رہی ہے مگر زیادہ تر قانون ساز اپنے خیالات میں مستحکم ہیں اور یہ یاد رہے کہ باقاعدگی سے ووٹ ڈالنے والوں کی اکثریت بڑی عمر کے افراد کی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگوں کا احتجاج سے زیادہ اپنے نمائندوں سے براہ راست رابطہ کرنا اور اپنے موقف کو ان تک پہنچانا سیاسی تبدیلی لانے کے لئے ضروری ہے۔ اور صورت حال میں تبدیلی کے لئے احتجاج کی نسبت سیاسی تنظیم سازی کی ضرورت ہے۔