پاکستان میں قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک جانے والے کارکنوں کو مقامی قوانین سے آگاہی نہ ہونے کے باعث انصاف کے حصول میں استحصال کا سامنا ہے۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان نے خلیجی ممالک میں روزگار کے لیے بجھوائے جانے والے افراد کے حراستی مراکز میں حالت زار اور استحصال پر اپنی جائزہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق تارکین وطن کو بیرون ملک بجھوانے کے لیے وضع کیا گیا نگرانی کا سرکاری نظام ناقص ہے۔ اس کے باعث انہیں انسانی ٹریفکنگ، جبری مشقت، بیرون ملک حراستی مراکز میں بدسلوکی اور بعض صورتوں میں سزائے موت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 11 ہزار پاکستانی بیرون ممالک قید ہیں جن میں سے 3309 سعودی عرب میں، 2600 متحدہ عرب امارات میں جب کہ امان میں 647، بھارت میں 582، یونان میں 470 اور برطانیہ میں 412 پاکستانی وہاں کی جیلوں میں قید ہیں۔
سعودی عرب میں منشیات کے جرائم میں قید پاکستانیوں کے اہل خانہ، سابق قیدیوں اور بیرون ملک ملازمت فراہم کرنے والے افراد سے کیے گئے انٹرویوز بھی اس رپورٹ کا حصہ ہیں جس میں پاکستانی مزدوروں کو ترک وطن کے دوران پیش آنے والے مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رپورٹ کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری برائے امور خارجہ عندلیب عباس نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے بیرون ممالک دوروں کے ایجنڈے میں وہاں کے حراستی مراکز میں قید پاکستانیوں کا معاملہ سرفہرست ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنے حالیہ دورہ ایران کے دوران وہاں قید پاکستانیوں کا معاملہ اٹھایا جس کے نتیجے میں ایران میں قید 26 سزائے موت کے منتظر قیدی اب وطن واپس آ رہے ہیں۔
ایران میں 189 پاکستانی مختلف مقدمات میں قید میں ہیں جن میں سے کچھ کو منشیات سے متعلق کیسز کا سامنا ہے۔ ایران نے حال ہی میں منشیات سے متعلق بعض جرائم میں سزائے موت ختم کر دی تھی جس کے بعد اب یہ 26 قیدی اپنی بقیہ سزا پاکستان میں کاٹیں گے۔
عندلیب عباس کا یہ بھی کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران 2200 قیدیوں کی وطن واپسی کا اعلان کیا تھا جس میں سے 200 افراد پاکستان پہنچ چکے ہیں جب کہ بقیہ دو ہزار افراد بھی جلد وطن واپس آ جائیں گے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پاکستانی قوانین کے تحت غیر منظور شدہ ایجنٹ، لوگوں کو باہر بجھوانے کا کام نہیں کر سکتے، تاہم عملاً ان قوانین پر عمل نہیں ہو رہا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرامد نہیں کیا جا رہا، لہذا ان معاملات میں پارلیمنٹ کو مورد الزام نہیں ٹھرایا جا سکتا کیونکہ پارلیمان قوانین بنا سکتی ہے ان پر عملدرامد انتظامیہ کا کام ہے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پاکستان کو بیرون ملک کام کرنے والے کارکنوں سے متعلق عالمی کنونشن کا حصہ بننا چاہئے تاکہ ان ہم وطنوں کی کچھ داد رسی ہو سکے۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارا بلال کا کہنا تھا کہ خلیجی ممالک کی حکومتوں کی جانب سے تارکین وطن کے استحصال کو نظر انداز کرنا مزید لوگوں کو انسانی ٹریفکنگ کا شکار بنا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ افرادی قوت برآمد کرنے والے ملک کے طور پر پاکستان اپنی ذمہ داری کو تسلیم کرے اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے موثر پالیساں اپنائے۔
سارا بلال کے مطابق انسانی ٹریفکنگ کا شکار ہونے والے ایسے افراد جنہیں منشیات لے جانے پر زبردستی مجبور کیا گیا ہو ان کے ساتھ منشیات اسمگلروں جیسا سلوک انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
سینٹر سسی پلیچو نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے پاکستان کو عالمی کنونشن کا حصہ بننا چاہئے اور خلیجی ممالک کے ساتھ دوطرفہ معاہدے بھی کیے جانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی جماعت کے ساتھ مل کر وہ امیگریشن آرڈیننس 1979 میں ترمیمی بل جلد ہی سینیٹ میں پیش کریں گی۔
انہوں نے کہا کہ بیرونی ممالک میں قید پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے لیے اقدامات اور ان ممالک کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدوں طے کیے جانے چاہئیں۔
جسٹس پراجیکٹ کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ تین برس کے دوران 15 لاکھ پاکستانی روزگار کی تلاش میں دوسرے ممالک کا رخ کر چکے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ پاکستانی ملک سے باہر مقیم ہیں جن کی بدولت ملک کو قیمتی زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرون ملک نقل مکانی کے عمل کی نگرانی کے لیے قانون اور سرکاری ادارے موجود ہیں، تاہم ان قوانین کے نفاذ کا نظام کمزور ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان سے خلیجی ممالک کو افرادی قوت بجھوانے کا عمل بے ضابطہ ہے اور بیرون ملک بجھوانے والے غیر منظور شدہ ایجنٹ اس نظام میں موجود نقائص کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وسائل سے محروم افراد کا استحصال کرتے ہیں۔